کم سن سے شادی: شرعی عدالت نے امام مسجد کو سزائے قید سنا دی
10 جولائی 2018
ملائیشیا کی ایک سرکاری شرعی عدالت نے ایک گاؤں کے اکتالیس سالہ امام مسجد کو تھائی لینڈ کی ایک گیارہ سالہ لڑکی سے شادی کرنے پر قریب ساڑھے چار سو امریکی ڈالر کے برابر جرمانے اور چھ ماہ قید کی سزا سنا دی ہے۔
اشتہار
ملائیشیا کے دارالحکومت کوآلالمپور سے منگل دس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ملک کے شمال مشرقی علاقے کیلانتان میں ریاستی شرعی عدالت نے تصدیق کر دی کہ سزا یافتہ ملزم کی اس نابالغ لڑکی سے شادی کو بھی قانوناﹰ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
عدالتی ذرائع کے مطابق ملزم کا نام چے عبدالکریم چے عبدالحمید ہے، جو ایک دیہی علاقے کی مسجد کا امام ہے اور اس کی عمر 41 برس ہے۔ عدالت کے مطابق ملزم اسلامی عائلی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا اور اسے سنائی گئی چھ ماہ قید اور 1800 رِنگٹ جرمانے کی دوہری سزا ’انتہائی مناسب‘ ہے۔
یہ امام مسجد مقامی طور پر ربر کی تجارت بھی کرتا ہے اور اس نے پہلے بھی دو شادیاں کر رکھی ہیں۔ ان دونوں بیویوں سے اس کے چھ بچے ہیں۔ اس ملزم کو جرمانے اور قید کی سزائیں اس لیے سنائی گئیں کہ اس نے تھائی لینڈ کی اس 11 سالہ بچی سے شادی کرنے سے قبل اپنی پہلی دونوں بیویوں سے اجازت نہیں لی تھی۔
اس بارے میں وکیل استغاثہ نے قبل ازیں ڈی پی اے کو بتایا تھا کہ اس مقدمے کی بنیاد ملزم کی طرف سے ’پہلی بیوی یا بیویوں کی رضامندی کے بغیر نئی شادی کرنے‘ کو بنایا گیا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق جب اس 41 سالہ ملائیشین مسلمان نے 11 سالہ تھائی مسلم لڑکی سے شادی کی تھی تو یہ نکاح بچی کے والدین کی رضامندی سے ہوا تھا، اور اس موقع پر تھائی لینڈ کی ایک مسجد میں دلہن کے والدین بھی موجود تھے۔
اس بارے میں ملائیشیا کی سٹار نیوز ویب سائٹ نے بتایا کہ گیارہ سالہ تھائی دلہن کی والدہ اس امام مسجد کی پہلی دو بیویوں میں سے ایک کی ملازمہ ہے۔ حکام اس حوالے سے بھی اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آیا اس بچی کے والدین نے اپنی بیٹی کی یہ شادی کرنے کا فیصلہ اپنی غربت اور مالی محرومیوں کی وجہ سے کیا۔
ملائیشیا ایک ایسا مسلم اکثریتی ملک ہے، جہاں کسی بھی مسلمان لڑکی کی 16 برس سے کم عمر میں بھی شادی کی جا سکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے بچی کے والدین کی رضامندی اور کسی شرعی عدالت کی طرف سے اجازت نامہ لازمی ہوتے ہیں۔ ملائیشیا کے مسلمان مردوں کو ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی اجازت ہے۔
اس مقدمے کے حوالے سے ملائیشیا کی خاتون نائب وزیر اعظم وان عزیزہ وان اسماعیل نے گزشتہ ہفتے یہ بھی کہا تھا کہ حکام اس پہلو سے بھی تفتیش کر رہے تھے کہ آیا یہ شادی محض جنسی مقاصد کے تحت کی گئی تھی۔ وان عزیزہ اور کئی دیگر سرگرم سماجی کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ ملک میں بچوں کی شادیوں کے خلاف قانون سازی کی جائے۔
م م / ع ا / ڈی پی اے
جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں ایک ’وبا‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیش اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
شادی کی کم از کم عمر میں کمی کی تجویز
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو ایک ’وبا‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے زور دیا ہے۔ اس دوران اس تنظیم نے ڈھاکہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے
بنگلہ دیش میں تقریباً تیس فیصد لڑکیوں کو ان کی پندرہویں سالگرہ سے پہلے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔’’ اس سے پہلے کے سیلاب گھر کو بہا لے جائے شادی کر دی جائے‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی یہ رپورٹ ان میں سے چند لڑکیوں سے بات چیت کر کے مرتب کی ہے، جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں قانونی طور پر ایسی شادیاں غیر قانونی ہیں تاہم رشوت دے کر پیدائش کی دستاویز کو باآسانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
غربت مجبوری کا نام
بنگلہ دیش میں تواتر سے آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت سے شہری غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ غربت بھی چائلڈ میرج کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
جنسی اور جسمانی تشدد
کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/M. Asad
یہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
یہ مسئلہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم عمری میں زبردستی شادیاں کرانے کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلی دہائی کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 140 ملین لڑکیوں کی اٹھارہ سال سے کم میں شادی کر دی جائے گی اور ان میں سے 40 فیصد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوں گی۔
تصویر: DW/P.M.Tewari
روایات بمقابلہ قانون
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال میں کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2000ء اور 2010ء کے دوران 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی تقریباً پچیس ملیین لڑکیاں ایسی تھیں، جن کی شادی اس وقت کر دی گئی تھی، جب وہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Hatvalne
رویے میں تبدیلی
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے نائب ڈائریکٹر اسٹیفن ایڈکسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سلسلے میں لازمی طور پر مختلف سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران اموات اور صنفی تعصب کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔