1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم عمرلڑکیوں کی شادی، بنگلہ دیش سرفہرست

Kishwar, Mustafa24 اپریل 2012

جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں جہاں غربت، بے روزگاری اور دیگر معاشرتی مسائل کی کمی نہیں وہاں 19 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کا عام رواج بھی گوناگوں مسائل کا سبب بن رہا ہے۔

تصویر: Fotolia/macgyverhh

ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ معاشرتی علوم کی ایک پروفیسر مسعودہ راشد چودھری کا کہنا ہے کہ خواتین میں معاشرتی تحفظ کی عدم موجودگی کا احساس، ناخواندگی اور مذہبی روایات دراصل کم سنی یا بچگی میں ہی لڑکیوں کو بیاہ دینے کی فرسودہ روایت کا سبب ہیں۔ 160 ملین کی آبادی پر مشتمل اس مسلم اکثریتی معاشرے میں 19 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کو اکثر اُن سے دوگنی عمر کے مردوں کے ساتھ شادی پر مجبور کرنے کا رواج عام ہے۔ ماہرین معاشرتی امور کے خیال میں اس رجحان کے سبب معاشرتی ترقی کی رفتار بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یہ خواتین معاشرے کو بہت کچھ دے سکتی تھیں تاہم اس کے لیے انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ کم عمری میں بیاہ دی جانے والی لڑکیاں نہ تو تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، نہ ہی روزگار کی منڈی میں خاطر خواہ جگہ بنا پاتی ہیں۔

’’کم عمری میں شادی کے نتیجے میں لڑکیوں کو گونا گوں صحت کے مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے اور یہ اکثر اپنے بچوں کی پرورش بھی مناسب انداز میں نہیں کر پاتیں۔‘‘ یہ کہنا ہے بنگلہ دیش کے انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ سے منسلک پروفیسر نائلہ زمان خان کا۔

جبری شادی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک اہم مسئلہ ہےتصویر: DW

کم سن لڑکیوں کی شادی کے رجحان کے خلاف غیر سرکاری اداروں اور حکومتی مہم کے جاری رہنے کے باوجود حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش کے 1929 کے ’چائلڈ پریونشن ایکٹ‘ میں نابالغ لڑکیوں کی شادی کرنے والے کے لیے ایک ماہ کی قید کی سزا کا قانون موجود ہے تاہم اس کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس امر کی تصدیق بنگلہ دیش کی ’ویمنز لائیر ایسوسی ایشن‘ کی ڈائریکٹر ریحانہ سلطانہ نے کی ہے۔

ہوتا یہی کہ جب لڑکا اور لڑکی نابالغ یا بچے ہوتے ہیں اُس وقت اُن کے قانونی سرپرست شادی پر آمادگی کا اظہار کر دیتے ہیں اور اکثر شادی کے اندراج کے رجسٹر میں غلط عمر درج کرائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بہت محدود چھان بین کی جاتی ہے۔ ریحانہ سلطانہ کے بقول، ’’بنگلہ دیشی معاشرے میں لڑکیوں کو ابھی بھی ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ خاندان والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی کو کسی صاحب ثروت، مرد کے حوالے کر دیا جائے تاکہ اُن پر سے معاشی بوجھ کم ہو سکے۔‘‘ تاہم چند کم سن یا نابالغ لڑکیاں بیوی بننے کے بعد اپنی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔

افغانستان میں بھی کم عمر لڑکیوں کو جبری شادی کی فرسودہ روایت کا شکار بنایا جاتا ہےتصویر: Reuters

مونجوری رانی دیویناتھ نے 14 سال کی عمر میں ایک بیٹے کو جنم دیا۔ ان کا شمار اُن خوش قسمت خواتین میں ہوتا ہے جو مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی سنوار لیتی ہیں۔ ان کے شوہر نے انہیں شادی کے ڈیڑھ برس بعد ہی چھوڑ دیا۔ تاہم اُنہوں نے ایک برطانوی امدادی تنظیم کی مدد سے زندگی کی جانب واپسی میں کامیاب ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اب تعلیم حاصل کر کے ایک بہتر زندگی گزارنے کا خواب دیکھ رہی ہوں۔‘‘

ڈھاکہ کے نزدیک قائم ’شیشو پالی پلس چیرٹی‘ غیر مراعات یافتہ طبقے کے بچوں کو پالنے کا کام انجام دیتی ہے۔ حال ہی میں اس چیرٹی کے بچوں نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے ساتھ اپنے تجربات کے بارے میں براہ راست بات چیت کی۔ اسی چیرٹی میں دیویناتھ کو بھی پناہ ملی اور اب وہ سیکنڈری اسکول کے سرٹیفیکیٹ کے امتحان کی تیاری کر رہی ہے۔

km/aba(dpa)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں