کم عمری کی شادیاں، مختلف ملکوں کو اربوں ڈالر نقصان
6 دسمبر 2018
عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے مختلف ممالک کو اربوں ڈالر نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اشتہار
رُووِمبو ٹوپوڈزی صرف 15 برس کی تھی۔ وہ اپنے آبائی ملک زمبابوے میں گھر سے اسکول کے لیے نکلی، تو ایک 22 سالہ آدمی نے راہ روک کر کہا کہ اس کے ساتھ چلے۔ اس نے یہ پیش کش ٹھکرا دی، مگر شاید اسے تاخیر ہو چکی تھی۔ اس کے والد نے ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ لیا تھا اور یہ سمجھ چکا تھا کہ یہ دونوں ساتھ ہیں۔ والدہ نے کہا کہ ٹوپوڈزی کو اس مرد کے ساتھ شادی کرنا ہو گی۔ اسے اسکول چھڑا دیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد وہ حاملہ ہو گئی۔
جب اس کے شوہر نے اسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، تب ماں باپ کے ہاں اسے دوبارہ جگہ مل پائی۔ ٹوپوڈزی اب دیگر بچیوں کو اپنے جیسے بھیانک تجربے سے بچانے کے لیے انہیں کم عمری میں شادی نہ کرنے کا کہتی ہیں۔
زمبابوے میں شادی کے لیے کم سے کم عمر کو 16 برس سے بڑھا کا 18 برس کر دیا گیا ہے۔ ٹوپوڈزی کہتی ہیں، ’’ایک ماں اور کم عمری کی شادی کے تجربے کی شکار عورت کے طور پر۔ میں بچپن میں کی جانے والی شادیوں کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوں۔‘‘
گھانا کے دارالحکومت آکرا میں ایک کانفرنس کے موقع پر انہوں نے کہا، ’’میں جانتی ہوں کہ کم عمری میں شادی کسے کہتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ شادی کے بعد کس انداز کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔‘‘
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔
تصویر: AP
6 تصاویر1 | 6
عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سب صحارا افریقہ کے ممالک میں ہر تین میں سے ایک بچی 18 برس سے کم عمری میں جبری شادی کا شکار ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف ممالک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو راہ ہے۔
عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق 12 ممالک میں کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے قریب 63 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کی وجہ ان بچوں کا اسکول کی تعلیم مکمل نہ کرنا تھی۔