کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کے لیے ’بڑی تبدیلیوں کی ضرورت‘
25 جون 2018
کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کی کوشش کے سلسلے میں آج پیر 25 جون سے ملائیشیا میں ایک کانفرنس شروع ہو رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے کوشاں کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ’تبدیلیوں کے ایک سمندر‘ کی ضرورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki
اشتہار
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 12 ملین کے قریب لڑکیوں کی 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ ان شادیوں کے باعث اکثر ان لڑکیوں کی صحت اور ان کی تعلیم پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے کم عمری کی شادیوں کے مکمل خاتمے کے لیے 2030ء کا ہدف مقرر ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران کم عمری کی شادیوں کی شرح میں کمی آئی ہے تاہم ایسی شادیوں کے خلاف کام کرنے والی ایک کارکن لکشمی سندرم کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور دنیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات ان کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اسی باعث اقوام متحدہ کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ’’تبدیلیوں کے ایک سمندر کی ضرورت‘‘ ہے۔
’’گرلز ناٹ برائڈز‘‘ نامی مہم کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سندرم کے مطابق ’’یہ ایک پر عزم ہدف ہے‘‘۔ یہ گروپ ہی کوالالمپور میں تین روزہ میٹنگ کا اہتمام کر رہا ہے۔ لکشمی سندرم نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں کہا، ’’جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے حکومتوں اور امداد فراہم کرنے والوں کی طرف سے کوششوں میں اضافہ۔۔۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور لڑکیوں کو تحفظ فراہم کریں۔‘‘
اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران 25 ملین کے قریب کم عمری کی شادیوں کو روکا گیا۔ سب سے زیادہ کمی جنوبی ایشیا میں ہوئی جہاں 18 برس سے کم عمر کی شادیوں کی شرح 50 فیصد سے کم ہو کر اب 30 فیصد تک آ گئی ہے۔
لکشمی سندرم کے مطابق کم عمری کی شادیوں کی ایک بڑی وجہ غربت تو ہے ہی مگر تنازعات سے مثلاﹰ شام کا تنازعہ یا شدید موسم کے شکار ممالک میں جن میں بنگلہ دیش، مالی اور نائجر بھی شامل ہیں لڑکیوں کے لیے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے: ’’یہ مسائل نئے چیلنجز بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال سے دو چار لڑکیوں کی مدد کیسے کی جائے۔‘‘
دنیا بھر میں ہر سال 12 ملین کے قریب لڑکیوں کی 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی شادی کر دی جاتی ہے۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Delay
کوالالمپور میں ہونے والی میٹنگ میں دنیا کے 70 ممالک سے 500 سے زائد مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔ انہی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ حدیقہ بشیر بھی ہیں۔ حدیقہ خود 11 برس کی عمر میں شادی کر دیے جانے کی کوشش سے بچی تھیں جس کے بعد انہوں نے لڑکیوں کی مدد کے لیے ’’گرلز یونائیٹڈ فار ہیومن رائٹس‘‘ نامی گروپ کی بنیاد رکھی۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے حدیقہ کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے لوگوں کے شعور اور ان کے سوچنے کے انداز میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔