کم گوشت کھانا ماحول دوستی ہے، لیکن یہ بات اتنی درست بھی نہیں
16 اکتوبر 2020
زمین کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں کہا جاتا ہے کہ کم گوشت کھانا اور زیادہ پودے لگانا دونوں ناگزیر ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف کروڑوں انسانوں کی گزر بسر مویشی پالنے پر ہے، اور یہ صورت حال ان کے لیے آسان نہیں ہے۔
اشتہار
ماحولیاتی محققین برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ یہ بات کرہ ارض کے مفاد میں ہے کہ انسان گوشت اور گوشت سے بنی مصنوعات کم کھائیں کیونکہ یہ بات انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ایک سیارے کے طور پر زمین کے لیے بھی فائدہ مند ہو گی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مویشیوں سے خارج ہونے والی گیسیں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر زمین کے بالائی ماحول کے لیے انتہائی مضر ہیں۔
کسانوں کی املاک میں شمار ہونے والے مویشیوں میں بکریاں، گائیاں، بھینسیں، سؤر اور پولٹری (مرغیاں، بطخیں اور دیگر پرندے) شمار ہوتے ہیں اور یہ سالانہ بنیادوں پر 7.1 گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ مجموعی انسانی آبادی سال بھر میں ایسی تقریباً 14.5 فیصد گیسیں خارج کرتی ہے۔
یہ اندازہ اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او (FAO) کا لگایا ہوا ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ مویشیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کُل مقدار میں سے تقریباً 65 فیصد وہ گھریلو چوپائے خارج کرتے ہیں، جن کا گوشت اور دودھ انسان استعمال کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے کے مطابق گھریلو مویشیوں کی خارج کردہ گیسیں صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث ہی نہیں بنتیں بلکہ انسانوں کے پالے ہوئے مویشی تین چوتھائی زرعی اراضی پر غلبہ رکھنے کے ساتھ ساتھ جنگل بردگی بھی کرتے ہیں اور پانی بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔ جنگل بردگی میں خاص طور پر ایمیزون کے جنگلات کی مثال دی جا سکتی ہے۔
جرمن شہری ہر وقت سوسیج، زاؤرکراؤٹ اور آلو ہی نہیں کھاتے۔ یہاں آئیے ذرا جھانک کے دیکھیں مختلف دسترخوانوں میں، جو گرمی کے موسم میں اِدھر اُدھر دکھائی دے رہے ہیں۔ویسے پھر بھی آلو اور سوسیج کی توقع ضرور رکھیے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
گرمی، بار بی کیو کا موسم
دیگر بہت سے ممالک کی طرح جرمن شہری بھی بار بی کیو کے مزے لیتے ہیں۔ ظاہر ہے، سوسیج کو تو گرل کیا ہی جا سکتا ہے گوشت کی طرح، مگر سبزیاں اور ترک پنیر گرل پر اپنی خوشبو اڑاتے نظر آتے ہیں۔ بہت سے جرمنوں کے پسندیدہ اب بھی روایتی کوئلے والے گرل ہیں۔ شہریوں میں کئی پبلک پارکس میں بھی لوگ بار بی کیو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Y. Arcus
تھوڑا سا ’کراؤٹ سالاد‘ ڈالیے نا
عالمی جنگوں کے دوران جرمنوں کو تضحیک سے پکارنے کے لیے ’کراؤٹ‘ پکارا جاتا تھا۔ جرمن لفظ ’کراؤٹ‘ کا مطلب ویسے تو جڑی بوٹی ہے، مگر جرمنی میں اسے کیبیج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے جرمن ڈش ’’زاور کراؤٹ‘‘، جس میں کیبیج کو باریک کاٹا جاتا ہے۔ جرمنی میں اسے مایونیز کی بجائے سرکے کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ بعض افراد یہاں اس پر سیب اور پیاز بھی کاٹ کر ڈال لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
آلو کا سالاد
اگر آلو کے لیے جرمن لفظ ’کرٹوفل‘ بولنے میں آسان ہوتا، تو یقین مانیے ماضی میں جرمن فوجیوں کو شاید اس نام سے پکارا جاتا۔ اس لیے کہ جرمنی میں آلو بے حد استعمال کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جرمنی میں جتنے خاندان بستے ہیں شاید اتنی ہی ’آلو کے سالاد بنانے کی ترکیبیں‘ بھی ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ اپنی والدہ کی بتائی ہوئی ترکیب پر پوری زندگی عمل پیرا رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
آلو کی ایک اور ڈش، ’’پیل کرٹوفل مِٹ کوارک‘
موسم گرما میں، کھانا پکانے کا جی کب چاہتا ہے۔ اسی لیے جرمن اس کا علاج بھی آلو ہی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ وقت اور توانائی بچانے کے لیے ’پیل کروٹوفِلن‘ ڈش سے بہتر کیا ہو گا۔ اس میں آلوؤں کو چھلکوں سمیت ابال لیا جاتا ہے اور ان کی جلد کھاتے وقت اتاری جاتی ہے۔ اسے کھایا جاتا ہے، دہی کی طرح کے ڈیری پروڈکٹ ’کوارک‘ کے ساتھ۔ ساتھ ہی کالی مرچ اور کچھ دیگر لوازمات بھی رکھ لیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago
ارے سالاد صرف خرگوش تھوڑی کھاتے ہیں
صرف سبزی کھانے والے اب ذرا اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جرمنوں نے تو سالاد میں بھی گوشت شامل کر لیا۔ یہ ’فلائش سالاد‘ روٹی پر پھیلا کر کھایا جاتا ہے۔ بس آپ بالکونی میں بیٹھے ہوں گے، مایونیز یا ساؤر کریم، یا اچار، کٹا ہوا پیاز اور دیگر مسالے پاس ہوں گے اور یہ گوشت والا سالاد آپ کو لطف دے گا۔
تصویر: imago
ایک اور چیلنج، ’’ایپفل ماتیس سالاد‘
’ماتیس‘ مچھلی کے کتلے اچار والی بوتل میں بیچے جاتے ہیں۔ سب کو یہ مچھلی اس طرح پسند نہیں ہوتی، مگر شمالی جرمن ساحلی علاقے میں یہ ایک روایتی سی خوراک ہے۔ یعنی اس مچھلی کے کتلے کاٹ کر اسے ’اچار‘ بنا دیا جاتا ہے۔ اسے کٹے ہوئے پیاز اور کریمی ڈیری پروڈکٹ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ گرمیوں میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، آلو تو ساتھ ضروری ہیں۔
تصویر: imago
مزے مزے کی جڑی بوٹیاں، ’فرانکفرٹر گروئن سوزے‘
اب آپ موسم گرما کا رجحان تو سمجھ گئے ہوں گے۔ یعنی آلوؤں کے ساتھ مختلف طرح کے سوس۔ یہ سبز سوس فریکفرٹ کے علاقے میں مشہور ہے اور گرمیوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ اس سوس کا اپنا فیسٹیول اور باقاعدہ موسم ہوتا ہے، یعنی ہر برس ایسٹر سے قبل جمعرات کے روز سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔
تصویر: imago
پھل اور سبزیاں ملا دیں
شمالی جرمنی میں ایک موسم گرما میں قریب ہر گھر کی شاپنگ لسٹ میں تین چیزیں لازمی ہوتی ہیں، ناشپاتی، پھلیاں اور گوشت۔ یہی تین اجزا ملا کر بنایا جاتا ہے، ایک زبردست اور صحت مند سمر سٹیو۔ جرمنی میں جولائی سے ستمبر کے مہینوں میں ناشپاتی ویسے آپ کو ہر طرف بکتی نظر آتی ہے۔
تصویر: Colourbox
کھلی فضا میں آ جائیے
جرمنی میں موسم گرما آتا ہے، تو لوگ زیادہ وقت دھوپ میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، گھروں کے باغیچے ہوں یا پبلک پارکس، دھوپ سینکنے لوگ ہر طرف ملتے ہیں اور ایسے میں ہر جگہ بار بی کیو کرتے لوگ موسم گرما کو کسی جشن کا روپ دیتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-J. Hildebrand
9 تصاویر1 | 9
اربوں انسانوں کو گوشت کیوں درکار ہے؟
کہا جاتا ہے کہ زمین پر مغربی دنیا کے افراد کی گوشت خوری کی عادت میں کمی آنے سے بظاہر کچھ بھی نہیں ہو گا۔
یورپی افراد کی اوسط گوشت کھانے کی عادت باقی ماندہ دنیا کے مقابلے میں دگنی ہے اور اسی طرح دودھ سے بنی اشیاء کا استعمال بھی تین گنا زیادہ ہے۔
دوسری جانب کرہ ارض کے جنوب کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ اس علاقے میں ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی ضروری اجزاء کی حامل متوازن خوراک کے حصول سے دور ہے۔
ایف اے او کے مطابق خوراک کے ضروری اجزاء (خاص طور پر پروٹین) کا حصول صرف جانوروں سے ہوتا ہے۔ یہ پروٹین دودھ، گوشت اور انڈوں سے حاصل کی جاتی ہے۔
انٹرنیشنل انسٹیوٹ برائے پائیدار ترقی (IISD) کی سرکردہ عہدیدار کیرن اسمالر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمدہ خوراک دالوں، پھلوں اور سبزیوں سے مل جاتی ہے لیکن مویشی اور ڈیری مصنوعات انسانوں کے لیے بہت ضروری ہیں۔
کورنیل یونیورسٹی اور انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے پائیدار ترقی کی ایک مشترکہ رپورٹ رواں ہفتے جاری کی گئی۔ اس میں بھی مویشیوں، زندگی اور زمین کے مابین تعلق کو واضح کیا گیا۔
اس رپورٹ کے مطابق مویشی زراعت سے منسلک ایک اہم فیکٹر ہے اور گائے کے فضلے سے بننے والی قدرتی کھاد کئی فصلوں کی نشو و نما کے لیے اہم ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرعی نظام کے لیے مویشی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔
اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا انحصار مویشیوں پر ہے۔ دنیا میں ان سے حاصل ہونے والی خوراک بھوک اور کم خوراکی میں کمی کی وجہ بنتی ہے۔ بھوک کے عالمی انڈیکس کے مطابق سن 2019 میں تقریباً 700 ملین انسانوں کو بھوک کا سامنا رہا تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاشی ترقی غربت اور بھوک میں کمی لا سکتی ہے۔ اس تناظر میں عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو اگلے دس برسوں میں غربت اور بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد 850 ملین تک پہنچ جائے گی۔
مارٹن کوئبلر (ع ح / م م)
دنیا کے سب سے زیادہ گوشت خور ممالک
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ گوشت کا استعمال کہاں ہوتا ہے؟ اقوام متحدہ کے خوارک اور زراعت کے ذیلی ادارے کی جانب سے جو اعداد و شمار مہیا کیے گئے ہیں ،اس میں مچھلی اور دیگر سی فوڈ کا استعمال شامل نہیں۔