کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ سے دو دیہاتی زخمی، پاکستان
عابد حسین
3 جون 2017
پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام منقسم کشمیر میں سے گزرنے والی کنٹرول لائن پر پاکستانی اور بھارتی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس واقعے کی ذمہ داری بھارت پر عائد کرتے ہوئے مذمت کی ہے۔
اشتہار
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بھارت پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس کے فوجیوں نے کشمیر کے متنازعہ علاقے میں سے گزرنے والی کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کل جمعہ دو جون کو بھارت کی جانب سےکی جانے والی فائرنگ کے دوران دانستہ طور پر پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج کی فائرنگ سے دو دیہاتی زخمی ہوئے ہیں۔
نفیس ذکریا نے مزید کہا کہ فائرنگ کا تازہ واقعہ جمعے کو پیش آیا اور یہ فائربندی کے معاہدے کے منافی عمل ہے۔ دوسری جانب پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ کشمیر کے نیزہ پیر کے سرحدی مقام پر کی جانے والی فائرنگ کا مؤثر جواب دیا گیا اورجوابی کارروائی سے بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ روک دیا گیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ نیزہ پیر وہی سرحدی مقام ہے جہاں سن 2015 میں بھارت نے بھاری ہتھیاروں سے گولے داغے تھے۔ بھارتی فوج کی جانب سے گولے تب داغے گئے تھے جب سرحدی دیہات کے لوگ عیدالفطر کا مذہبی تہوار منا رہے تھے۔ بھارتی فوج کی گولہ باری کے بعد پاکستانی اور بھارتی افواج کے درمیان مختلف محاذوں پر شدید جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ان میں دونوں ملکوں کے فوجی اور عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
خیال کیا گیا ہے کہ متنازعہ کشمیری علاقے میں اب رمضان کے مہینے میں پھر ویسے ہی حالات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کشمیر کا علاقہ منقسم ہے اور اِس کے دونوں حصے بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیری علاقے میں نئی دہلی حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ ان مظاہروں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔