’کن‘ میلہ: بھارتی فلمسازوں کی نئی نسل
20 مئی 2013پندرہ تا چھبیس مئی فرانس میں Cannes کے مقام پر جاری مشہورِ زمانہ فلمی میلے میں بھارت کے میگا اسٹار امیتابھ بچن بھی شریک ہیں، جو نہ صرف اپنی پہلی ہالی وُڈ فلم ’دی گریٹ گیٹسبی‘ کی تشہیر کے لیے اس میلے میں موجود ہیں بلکہ اس میلے کے موقع پر بھارتی فلمی صنعت کے ایک سو سالہ جشن کی تقریبات میں بھی شرکت کر رہے ہیں۔
امیتابھ بچن نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے ملک کی فلمی صنعت کے لیے ’بالی وُڈ‘ کا لفظ استعمال کرنا زیادہ پسند نہیں کرتے۔ ’بِگ بی‘ کے نام سے مشہور اداکار نے کن میں کہا: ’’مَیں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ بھارتی فلمی صنعت کی ایک اپنی شناخت ہے چنانچہ مَیں اسے ’بھارتی فلمی صنعت‘ کہنا زیادہ پسند کروں گا، خاص طور پر اب، جب ہم اس سال اپنی فلمی صنعت کا ایک سو سالہ جشن منا رہے ہیں۔‘‘
امیتابھ بچن کے یہ خیالات اداکاروں اور ہدایتکاروں میں پائے جانے والے اُس نقطہء نظر کی ترجمانی کرتے ہیں، جس کے مطابق بھارتی فلمی صنعت رقص و موسیقی پر مشتمل عامیانہ فلموں سے ہَٹ کر بھی بہت کچھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران بھارت میں تیزی سے تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں اور اسی اعتبار سے فلموں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئی ہے اور اُنہیں بنانے والوں میں بھی۔
بھارت اس سال کن فلمی میلے کا مہمان ملک ہے۔ اتوار اُنیس مئی کو کن میلے کے رَیڈ کارپٹ پر بھارتی فلمسازوں کی نئی نسل کے چار ارکان جلوہ گر ہوئے، جو اپنی فلم ’بمبے ٹاکیز‘ کی نمائش کے لیے وہاں پہنچے تھے۔ یہ فلم اِن میں سے ہر ایک کی تیار کردہ ایک مختصر فلم پر مشتمل ہے۔
ان چار فلمسازوں میں دیباکر بینرجی بھی شامل ہیں، جنہوں نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’بہت سے فلم ہدایتکار ہیں، جنہوں نے سن دو ہزار کے اوائل سے فلموں کی ہدایات دینا شروع کی تھیں۔ اُنہوں نے بڑے سیٹ اور بڑے سٹارز والی فلمیں لے کر اُنہیں ایک بالکل ہی نئی جہت دی، جو آج کے بھارت کی شہری زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘
43 سالہ بینرجی کے مطابق اقتصادی ترقی اپنے ساتھ جو تبدیلیاں لے کر آئی ہے، اُن کے نتیجے میں ’فلم میکرز اور اداکاروں کی ایک بالکل نئی نسل نے جنم لیا ہے‘۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ رجحان صرف ممبئی کی اُس فلم نگری ہی میں دیکھنے میں نہیں آ رہا، جسے عام طور پر ’بالی وُڈ‘ کہا جاتا ہے بلکہ پورے بھارت میں بننے والی نئی فلمیں اسی رجحان کی عکاسی کرتی ہیں۔
بینرجی کی اپنی مختصر فلم تھیٹر کے ایک ایسے اداکار سے متعلق ہے، جو عرصے سے بیروزگار ہوتا ہے اور پھر اچانک اُسے کام ملنے لگتا ہے۔ بینرجی کہتے ہیں: ’’بہت سے فلمساز ایسے تھے، جو فلمی دنیا کے روایتی ڈھانچے سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ میری یا پھر انوراگ کاشیاپ کی طرح باہر سے آئے تھے۔ ان لوگوں نے آتے ہی غیر روایتی ڈھانچوں کے ساتھ غیر روایتی موضوعات پر فلمیں بنانا شروع کر دیں۔‘‘
جنوبی بھارت کی فلمی صنعت میں فلمیں بنانے کے ڈھنگ میں کافی زیادہ تبدیلی آئی ہے۔ بینرجی کے مطابق، ’جنوب میں بالکل ہی نئی طرز کی کہانیاں فلموں کے قالب میں ڈھلی ہیں اور اُنہوں نے ریکارڈ کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ بالی وُڈ نے اُنہیں دیکھ دیکھ کر نئی فلمیں بنانا شروع کی ہیں‘۔
بینرجی کے ساتھی فلمساز کرن جوہر کی مختصر فلم میں ایک ہم جنس پرستانہ تعلق کو موضوع بنایا گیا ہے اور موضوع کا یہ انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ کیسے اب کچھ فلم ہدایتکار ممنوعہ موضوعات کو بھی چننے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔
40 سالہ کرن جوہر کا شمار بھارت کے نامور ہدایتکاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اُنہوں نے ’اس موضوع کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے اس طرح کے خیال کو عملی شکل نہ دی تو میں فلمی دنیا میں اپنی موجودگی کے ساتھ انصاف نہیں کروں گا‘۔ کرن جوہر کے مطابق بھارتی معاشرے میں ابھی بھی ہم جنس پرستی جیسے موضوعات کو قبول کرنے پر زیادہ آمادگی موجود نہیں ہے۔
چالیس سالہ انوراگ کاشیاپ کی فلم میں بچوں کے اغوا کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس فلم کو کن میں بہت زیادہ پذیرائی ملی ہے۔
فلم ’بمبے ٹاکیز‘ میں شامل چوتھی مختصر فلم 39 سالہ ہدایتکارہ زویا اختر کی ہے، جس میں ایک ایسے لڑکے کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو ایک ڈانسر بننے کے خواب دیکھا کرتا ہے جبکہ اُس کا باپ اُسے ایک فٹ بال کھلاڑی بنانا چاہتا ہے۔ زویا اختر کے مطابق اگرچہ بھارتی فلمی صنعت نئے موضوعات کو بھی جگہ دے رہی ہے لیکن رقص و موسیقی پر مبنی روایتی فلموں کے لیے بھی ہمیشہ جگہ رہے گی کیونکہ بھارتی شہری موسیقی اور گیت سنگیت کو بے حد پسند کرتے ہیں۔
(aa/mm(afp