کوئتھن: احتجاج کے بعد ’اشتعال انگیزی‘ کی چھان بین شروع
10 ستمبر 2018
جرمن پولیس نے چھان بین شروع کر دی ہے کہ آیا کوئتھن شہر میں ہوئے مظاہروں کے دوران نیو نازی عناصر نے مجرمانہ کارروائیاں سرانجام دی ہیں؟ ایک جرمن شہری کی ہلاکت پر اتوار کی رات اس شہر میں مظاہروں کا انعقاد کیا گیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ کوئتھن شہر میں نیو نازی عناصر کی طرف سے تشدد کیے جانے کی اطلاعات پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس شہر میں ایک جرمن شہری کی ہلاکت کے بعد اتوار کی شام مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اس مظاہرے کی کال پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔
ابتدائی معلومات کے مطابق کوئتھن میں ایک جرمن شہری کی ہلاکت میں ملوث ہونے کے شبے میں دو افغان افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ سر میں چوٹ لگنے کے باعث وہ ہلاک ہوا تھا۔ مقامی میڈیا میں یہ خبر عام ہونے کے بعد دائیں بازو کے انتہا پسندوں فوری طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مہاجرت مخالف بیانات بھی دیے۔ اتوار کی شام منعقد ہوئی احتجاجی ریلی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دی جا رہی ہے۔
تاہم پیر کے دن حکام نے بتایا کہ ہلاک ہونے والا جرمن شہری دراصل دل کے شدید عارضے میں مبتلا تھا اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی ہلاکت کسی چوٹ لگنے کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ کوئتھن میں یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب ابھی حال ہی میں جرمن شہر کیمنٹس میں بھی ایک جرمن شہری کی ہلاکت ہوئی تھی۔
چھبیس اگست کو رونما ہونے والے اُس واقعے میں بھی تارک وطن پس منظر کے حامل دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مشرقی شہری کیمنٹس میں اس قتل کی واردات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا، جن میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
ع ب / ش ح (نیوز ایجنسیاں)
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔