کوئلے سے بجلی: پاکستان میں چینی سرمایہ کاری ماحول دوست نہیں
4 مئی 2017تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلے پندرہ برسوں میں چینی کمپنیاں پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں میں پندرہ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کریں گی۔ پاکستان میں پانی اور بجلی کی وفاقی وزارت کے سابق سیکرٹری محمد یونس، جو اب کامرس سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں، سمجھتے ہیں کہ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہیں۔
یہ وسیع تر منصوبہ 54 ارب امریکی ڈالر کے برابر لاگت والا پاک چین اقتصادی راہ داری پروجیکٹ ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی کے انیس منصوبوں میں 33 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ان منصوبوں میں کوئلے اور قابل تجدید توانائی کے پاور پلانٹس، ٹرانسمشن لائنوں اور کافی متنوع انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنا بھی شامل ہے۔ محمد یونس کہتے ہیں، ’’سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری سے امید ہے کہ سن 2018 کے اختتام تک پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں چھ ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہو گا۔‘‘ ان تمام منصوبوں سے ملک میں 16 ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جا سکے گی، جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس بجلی کا تین چوتھائی حصہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل کیا جائے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان بجلی گھروں میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی، جو ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے زیادہ نقصان دہ نہیں ہو گی۔ تاہم بہت سے ماہرین ماحولیات کی رائے میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتے ہی ہیں اور یہ پیسے کا ضیاع ہے، جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بنے گا۔
اسلام آباد میں ’کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹینکالوجی‘ سے وابستہ توانائی سے متعلقہ امور کے ماہر سید جواد حسین شہزاد نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’ان بجلی گھروں سے ملک میں کاربن گیسوں کے اخراج میں مزید اضافہ ہوگا اور یوں ماحول کو پہنچنے والے نقصان سے پاکستان کو اربوں روپے کا مالی نقصان بھی ہو گا۔‘‘
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق پاکستان میں بجلی کی مجموعی ضرورت 19 ہزار میگاواٹ ہے لیکن بجلی کی پیداوار صرف 15 ہزار میگاواٹ ہے۔ گرمیوں کے مہینوں میں ملک میں بجلی کی مانگ بڑھ کر 20 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق پاکستان میں سن 2025 تک بجلی کی مجموعی ضروریات بہت زیادہ اضافے کے ساتھ 49 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائیں گی۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ترقی اور منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق جنوبی پاکستان کے علاقے تھرپارکر کا شمار ان خطوں میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں کوئلے کے سب سے زیادہ ذخائر موجود ہیں اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان ان ذخائر سے فائدہ نہ اٹھائے۔ احسن اقبال نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’پاکستان کو اپنے ہاں پائے جانے والے 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ملکی معیشت ترقی کرے، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکیں اور غربت کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘‘
پاکستان ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا باعث بننے والے ممالک کی عالمی فہرست میں 135ویں نمبر پر ہے۔ عالمی بینک کے مطابق دنیا میں کاربن گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ لیکن پاکستان میں کاربن گیسوں کے اخراج میں سالانہ 3.9 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ احسن اقبال کہتے ہیں، ’’پاکستان میں کوئلے کے پاور پلانٹ اتنے ہی ماحول دوست ہوں گے جتنے کہ گیس پاور پلانٹ ہوتے ہیں۔‘‘ لیکن دوسری جانب قابل تجدید توانائی کے ماہرین کی رائے میں حکومت کی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے محبت باعث تشویش ہے۔ سابق وزیر مملکت برائے ماحولیات اور تحفط فطرت کی عالمی یونین آئی یو سی این کے نائب صدر ملک امین اسلم کہتے ہیں، ’’کوئی بھی سمجھ دار انسان کوئلوں سے توانائی حاصل کرنا نہیں چاہے گا۔ یہ پاور پلانٹ انسانی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں چینی سفیر سون ویدونگ نے اس موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے میں چین پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔‘‘ سی پیک منصوبے کے تحت شمسی توانائی کا ایک سولر پارک قائم کرنے اور پانی سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ بھی لگائے جائیں گے۔ ان کے علاوہ تین وِنڈ فارمز بھی قائم کیے جائیں گے۔ ان وِنڈ فارمز میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی تنصیبات لگائی جائیں گی۔ ان منصوبوں کے ذریعے7.5 ارب ڈالر کی لاگت سے 3900 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
پاکستان آلٹرنیٹیو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کے مطابق ملک میں شمسی توانائی سے 2.9 ملین میگاواٹ، ہوا سے تین لاکھ چالیس ہزار میگاواٹ اور پانی سے ایک لاکھ میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف قابل تجدید اور متبادل توانائی کی پاکستانی ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری میر احمد شاہ کہتے ہیں، ’’پاکستان شمسی توانائی، ہوا اور پانی سے کئی لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے، تو پھر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں میں سرمایہ کاری کی کیا ضرورت ہے؟ اب تو سعودی عرب جیسے ممالک بھی قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔‘‘