مشرقی جرمنی میں تحفظ ماحول کے ایک ہزار سے زائد کارکنان نے پولیس کا حصار توڑتے ہوئے کوئلے کی تین کانوں پر دھاوا بول دیا اور قریب واقع ریلوے ٹریک بند کردیا۔
اشتہار
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کوئلے کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
حکام کے مطابق ہفتے کے روز مظاہرین نے مشرقی جرمن ریاست برانڈبرگ کی دو کانوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ ماحول دوست مظاہرین نے سیکسنی ریاست کی ایک کان پر بھی دھاوا بولا۔
ماحول دوست گروپ اینڈے گیلینڈے (راہ کا خاتمہ) کا کہنا ہے کہ اس احتجاج میں شریک افراد کی تعداد چار ہزار تھی۔ مظاہرین نے کوئلے کے بجلی گھروں تک کوئلے کی رسد روکنے کے لیے ٹرین روٹ بھی بند کر دیا۔
اس گروپ کے ترجمان ژوہانی پارکس کے مطابق، ''ہم ایک انتہائی نازک دور میں ہیں۔ ماحولیاتی تباہی سے نمٹنے کی راہ مسدود ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
اس گروپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے حوالے سے حکومتی منصوبے پر بھی کڑی تنقید کی۔ جرمن حکومت کے منصوبے کے مطابق کوئلے کا استعمال سن 2038 تک ختم کیا جانا ہے، تاہم ماحول دوست تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی منصوبہ ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیے ناکافی ہے اور اس کے لیے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
جرمنی میں ژینشوالڈے کی کان کے قریب واقع بجلی گھر آلودگی کے اعتبار سے یورپ میں سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک عدالتی حکم نامے میں ماحولیات پر اس کے نہایت منفی اثرات کی بنا پر اس پلانٹ کی سرگرمیوں کو محدودکرنے کا کہا گیا تھا۔
جرمنی میں کوئلے کی کان کنی کا اختتام
جرمنی کی ڈیڑھ سو سالہ صنعتی ترقی میں سیاہ کوئلے کی کان کنی کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اب اس کان کنی کے سلسلے کی آخری کان ’پراسپر ہانیل‘ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس آخری کان کے بند ہونے پر کئی افراد افسردہ بھی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
’اداس تبدیلی‘
جرمنی کے رُوہر علاقے کے شہر بوٹراپ کے بعض مکین ’پراسپر ہانیئل‘ کان کو بند کرنے پر کسی حد تک افسردہ بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے خاندان ان کانوں میں گزشتہ تین نسلوں سے کام کرتے چلے آئے تھے۔ یہ کان جرمنی میں سیاہ کوئلے کی آخری کان تھی۔ اس کان سے نکالا گیا آخری کوئلہ جرمن صدر فرانک والٹر اسشٹائن مائر کو تحفہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Seidel
سیاہ سونا
کوئلہ ایک ایسی شے ہے، جس کو کھلے موسم میں بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ تصویر میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ کوئلے کو ریل گاڑیوں کے ذریعے کھپت کے لیے مختلف مقامات تک پہنچایا جاتا تھا۔ ایک بڑی مقدار میں کوئلہ جرمنی سے برآمد بھی کیا جاتا تھا۔ جرمنی کے سخت سیاہ کوئلے کی مانگ دنیا بھر میں بہت زیادہ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
کان کنی کے کام کی وقعت
جرمنی میں کان کنی صرف ایک مناسب آمدن کا ذریعہ ہی نہیں تھا بلکہ کانوں میں کام کرنے والوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا۔ کانوں میں کام کرنے والے بھی آپس میں بہت گہرے تعلق میں بندھے رہتے تھے۔ اُن کی یکجہتی پیشہ ورانہ تفاخر کا مظہر خیال کی جاتی رہی ہے۔ تصویر میں پراسپر ہانیئل کان کے کان کن کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Heyder
کام اور زندگی
کوئلے کی کانوں کے مالکان ہی کان کنوں کے مکانات کی تعمیر کیا کرتے تھے اور یہ مکانات کان کے قریبی علاقوں میں تعمیر کیا جاتے تھے۔ مکانات کے اردگرد باغات بنانے کا رواج بھی رہا ہے۔ کانوں میں کام کرنے والے کان کن اپنے شوق کے لیے مرغیاں اور سور بھی پالتے تھے۔ بعض کان کن کبوتروں کے ڈربے بھی رکھتے تھے۔ یہ مکانات رفتہ رفتہ عام لوگوں میں مقبول ہونے لگے کیونکہ یہ ایک طرح سے باغ دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Schulte
اناطولیا کے ساتھی
دوسری عالمی جنگ کے بعد جنوبی یورپ اور ترک علاقے اناطولیا سے بھی کان کن جرمن کانوں میں کام کرنے کے لیے آئے۔ کئی ایسے کان کن پولینڈ میں واقع کوئلے کی کانوں میں بھی کام کرتے تھے۔ ایسے کئی کان کنوں نے ہمیشہ کے لیے جرمنی اور پولینڈ میں رہنے کو ترجیح دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اولین دراڑیں
سن 1950 اور 1960 کی دہائیاں جرمن علاقے رُوہر کی کان کنی کی صنعت کے لیے ’سنہرا دور‘ تصور کی جاتی ہیں۔ ان کانوں میں زوال کی دراڑیں تب پیدا ہونا شروع ہوئیں جب ان کی زیر زمین گہرائی بڑھتی گئی۔ جتنی گہرائی بڑھتی ہے اتنی ہی کان کنی مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جاتی ہے۔ کئی کانیں پندرہ سو میٹر تک گہری تھیں۔ کان کنی کے مہنگا ہونے سے جرمن کوئلے کی مانگ میں کمی پیدا ہونے لگی۔
تصویر: picture-alliance/KPA
ماحول کے لیے نقصان دہ
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رُوہر کا علاقہ اپنی کثیف ہوا کی وجہ سے بدنام رہا ہے۔ کوئلے کی کانوں کے پاس کے علاقے میں سیاہ خاک کی تہہ کھلے عام رکھی اشیا پر جم جاتی تھی۔ اس تصویر میں اوبرہاؤزن شہر کی فضا میں پھیلا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ شہر بوٹراپ سے زیادہ دور نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/L. Schulze
کان کنی سے زیر زمین عدم استحکام
رُوہر علاقے میں کان کنی اب بند ہو چکی ہے لیکن اب بھی زیر زمین گہری کانوں کی کھدائی سے عدم استحکام کی کیفیت محسوس کی جاتی ہے۔ ان اندرونی کانوں کے اچانک منہدم ہونے سے ریلوے ٹریک اور مکانات کو کئی مرتبہ نقصان پہنچ چکا ہے۔
تصویر: Imago/J. Tack
یہ کام ابھی تک نہیں ہوا
رُوہر علاقے میں کئی مقامات گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں کی کان کنی کی وجہ سے پچیس میٹر تک نیچے دھنس چکے ہیں۔ زیر زمین کانوں کی کھدائی کے نقصانات ابھی تک دیکھے جا رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح اچانک بلند ہو کر مکانات کے لیے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ اس پانی کی بلند سطح کو پمپوں کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ اس نقصان کا ازالہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا اور اسے ’آفاقی نقصان‘ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Imago/blickwinkel
اب باقی کیا بچا ہے؟
کان کنی کے اختتام کے بعد اب کانوں کے علاقے میں بنایا گیا مینار گرا دیا گیا ہے۔ کئی قریبی علاقوں میں کئی عمارتوں کو بھی منہدم کیا جا چکا ہے اور کانوں کے ارد گرد کے علاقوں کو ہرا بھرا کیا جا چکا ہے۔ بعض صنعتی علاقوں کو تفریحی پارکوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سارے علاقے ابھی باقی ہیں۔ ایسن شہر کا زولفرائن کو اس کی شناخت کے حوالے سے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کر لیا گیا ہے۔
تصویر: Guntram Walter
10 تصاویر1 | 10
ماحولیاتی تنظیم کے ترجمان پارکس نے کہا، ''ہم اس مظاہرے کے ذریعے آج یہ بتا رہے ہیں کہ یہ کان مستقبل طور پر بند کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوسری جانب برانڈنبرگ کے حکام کے مطابق مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی، جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوگئے۔ ادھر لائپزگ شہر کے قریب واقع یونائیڈ شلیہائن کان کے باہر مظاہرین نے طاقت کے زور پر پولیس کا حصار توڑا اور کان میں داخل ہوگئے۔
ویلسوو زوئڈ مائن سے کوئلہ حاصل کر کے بجلی بنانے والے ادارے ایل ای اے جی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ''ہم ایسے تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے، جو ہماری کمپنی کی حدود میں غیرقانونی طور پر داخل ہوگا۔‘‘
پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو بارہا متنبہ کیا گیا ہے کہ کوئلے کی کانوں میں داخل ہونا خطرناک ہے، تاہم جب یہ کارکنان ان کانوں میں داخل ہوئے، تو ان کا اس لیے پیچھا نہیں کیا گیا تاکہ پولیس اہلکار محفوظ رہیں۔