پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق کوئٹہ میں ایک فوجی ٹرک پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس کارروائی میں کم از کم پندرہ افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بارہ اگست بروز ہفتہ کی شب کوئٹہ میں ایک بس اسٹاپ کے قریب ایک دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں وہاں آگ لگ گئی۔ پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے اس دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم پندرہ افراد ہلاک جبکہ بتیس زخمی ہو گئے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی ایک ٹوئٹ میں اسے ایک دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ٹرک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے مزید کہا کہ دراصل یہ پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش تھی لیکن پاکستان فوج کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پاکستانی فوج تمام تر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
یہ کارروائی ایک ایسے وقت پر کی گئی ہے، جب دو روز بعد ہی پاکستان اپنا 70 واں یوم آزادی منا رہا ہے۔ اس مناسبت سے کوئٹہ سمیت کئی حساس علاقوں میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان انوار الحق نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امدادی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے جبکہ چھٹیوں پر گئے ڈاکٹروں کو بھی فوری طور پر طلب کر لیا گیا ہے۔ ادھر طبی ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
فوری طور پر اس کارروائی کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے تاہم وہاں کئی انتہا پسند گروہوں کے علاوہ بلوچ علیحدگی پسند بھی فعال ہیں، جو ماضی میں ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔