حمیدہ علی ہزارہ کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ حقوق نسواں کی علمبردار اس خاتون نے کوئٹہ شہر میں ایک ایسے ریسٹورنٹ کا آغاز کیا ہے، جس میں زیادہ تر عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔
اشتہار
حمیدہ علی نے کوئٹہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جہاں وہ رہتی ہیں وہاں عورتوں کا گھروں سے نکلنا عام نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا،’’ بہت سی عورتوں کو گھر وں سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی، میں چاہتی تھی کہ عورتوں کو گھروں کی دیواروں سے باہر نکالوں اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کروں۔‘‘
حمیدہ نے تین ماہ قبل کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ’ہزارہ ریسٹورنٹ‘ کا آغاز کیا تھا۔ حمیدہ بتاتی ہیں کہ اس کاروبار کا آغاز کرنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ انہوں نے بتایا،’’ میں کافی عرصے سے پیسے جمع کر رہی تھی۔ مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کام کے بجائے عورتوں کے لیے چندہ جمع کر لیتی۔ کچھ نے کہا کہ کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بیٹھ جاتی۔کچھ نے کہا کہ عورت کا کاؤنٹر پر بیٹھنا ’بے غیرتی‘ ہے۔‘‘ حمیدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اس منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچایا۔
ہزارہ ریسٹورنٹ میں کل سات خواتین کام کر رہی ہیں، جو کھانا پکاتی بھی ہیں اور گاہکوں کو کھانا پیش بھی کرتی ہیں۔ حمیدہ نے بتایا کہ انہوں نے اشیائے خورد ونوش خریدنے کے لیے دو مردوں کو ملازمت دی ہوئی ہے۔
کیا عورتیں ان کے ساتھ کام کرنے پر آسانی سے تیار ہو گئی تھیں ؟ اس سوال جواب دیتے ہوئے حمیدہ نے کہا، ’’عورتوں کو سہارا چاہیے تھا۔ اب یہ خواتین گھر سے باہر نکل کر کام کر رہی ہیں۔ جو گاہک کھانا کھانے آتے ہیں، وہ حیران ہوتے ہیں اور انہیں یقین نہیں آتا کہ اس جگہ صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی کھانا کھانے آسکتے ہیں۔‘‘
حمیدہ نے بتایا کہ یہاں خانسامہ خواتین مختلف طرح کے کھانے پکاتی ہیں۔ اس ریسٹورنٹ کی سب سے زیادہ پسند کی جانی والی ڈش ہزارہ کمیونٹی کی روایتی ڈش ’آعش‘ ہے۔ اس کھانے میں آٹے کے نوڈلز کے ساتھ دالیں، لوبیا، پالک اور دہی ڈالا جاتا ہے۔ یہ ہزارہ کی ایک ایسی خاص ڈش ہے، جسے بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں۔
حمیدہ بتاتی ہیں کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جب لوگوں نے یہاں کام کرنے والی خواتین کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کھانا پیش کرنے والی خواتین کو زیادہ ٹپ بھی دی۔ لیکن ان خواتین کو مشکل حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حمیدہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کھانا پیش کرنے والی خواتین کو تلخ جملے بھی سننے کو ملے ہیں۔ کچھ گاہکوں نے کہا کہ تم عورتوں کے گھروں کے مرد ’بے غیرت‘ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں کی عورتوں کو گھر سے باہر بھیجا ہے۔‘‘
ہزارہ ریسٹورنٹ میں خواتین گاہک بھی بہت شوق سے آتی ہیں۔ حمیدہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’بہت سی عورتیں جو شام میں خریداری کرنے بازار آتی ہیں وہ اکثر ہمارے ریسٹورنٹ میں آجاتی ہیں۔ اسی طرح طالبات بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ یہاں دیر تک بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔‘‘
حمیدہ کوئٹہ میں ’حرمت نسواں فاؤنڈیشن‘ بھی چلاتی ہیں اور عورتوں کی کھیلوں میں شمولیت، تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام بھی کرتی ہیں۔ حمیدہ نے ڈی ڈبلیو سے اپنی جدوجہد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جب تک آپ خود قدم نہیں بڑھائیں گی تو کوئی آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔‘‘ حمیدہ کہتی ہیں کہ آپ کے لیے مسائل پیدا کیے جائیں گے لیکن، ’’ اگر ہم پر عزم رہیں، تو سب کچھ حاصل کرنا ممکن ہے۔‘‘
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔