1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئٹہ میں پاکستاں اور افغان سینیئر فوجی حکام کی اہم ملاقات

3 مئی 2018

ایک اعلیٰ سطحی افغان فوجی وفد نے پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا آج ایک غیر متوقع دورہ کیا ہے۔ افغان فوجی وفد اور پاکستانی فوج کے سینیئر کمانڈروں کی ملاقات قیام امن اوردیگر اہم امور پر اتفاق کیا گیا ہے۔

Pakistan Quetta Sicherheitskräfte Turbat Balochistan
تصویر: DW/A.G. Kakar

دس رکنی افغان نیشنل آرمی کا اعلیٰ سطحی وفد دو ایم ائی 17 ہیلی کاپٹروں میں کوئٹہ پہنچا۔ وفد کی قیادت افغانستان کی 205 کور کے کمانڈر میجر جنرل امام نظر کر رہے ہیں۔ اس وفد میں افغان 215 کور کے کمانڈر میجر جنرل ولی محمد اور دیگر سینیئر کمانڈرز بھی شامل ہیں۔

افغان فوجی وفد نے کوئٹہ میں سدرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا جہاں ان کی پاکستانی فوج کے سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات ہوئی۔

ملاقات میں پاک افغان سرحد کی منیجمنٹ پر تفصیلی گفتگو کی گئی اور اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ باہمی تعاون اور رضا کارانہ کارروائی سے قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

افغان فوجی وفد نےملاقات کے دوران اس عزم کو دہرایا کہ افغانستان خطے میں پائیدار امن کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سر زمین سے ایسے عناصر کا خاتمہ کرے جن کی وجہ سے قیام امن کی صورتحال متاثر ہو رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق افغان وفد نے یہ واضح کیا ہے کہ شدت پسندی کےخاتمے کے لیے افغانستان جامع اقدامات کر رہا ہے اورافغان سر زمین پر جو قوتین دہشت گردی پھیلا رہی ہیں وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ افغان وفد کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایسے جامع دو طرفہ اقدامات کی ضرورت ہے جوکہ زمینی حقائق پر مبنی ہوں ۔

ملاقات کے موقع پرپاکستانی فوجی حکام کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد کے محفوظ بننے سے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی قیام امن کی صورتحال پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

پاک افغان فوجی وفود کے درمیان ہونے والی اس اہم ملاقات میں سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے مؤثر سکیورٹی میکنزم مرتب کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔

مبصرین کے بقول پاک افغان حالیہ سرحدی کشیدگی اور قیام امن کے حوالے سے افغان فوجی وفد کا کوئٹہ کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ افغان فوجی وفد نے یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب افغانستان میں حکومت نے طالبان کو ایک بار پھرجامع مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

اسلام اباد میں مقیم پاکستان کے دفاعی اور افغان امور کے ایک سینیئر تجزیہ کار، میجر (ر) عمر فاروق کا کہنا ہے کہ پاک افغان تعلقات میں اعتماد کی بحالی اور مزید بہتری لانے کے لیے باہمی رابطوں پر توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں پاک افغان تعلقات میں اس وقت جو سرد مہری ہے اس کے خاتمے کے لیے بہت ضروری ہے کہ باہمی رابطوں کو بڑھایا جائے تاکہ دوریاں ختم کی جا سکیں۔ آج افغانستان کے سینیئر فوجی کمانڈروں نے کوئٹہ کا جو دورہ کیا ہے وہ کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔ اس وقت دونوں ممالک ان کوششوں میں مصروف ہیں کہ باہمی اعتماد کی فضاء بحال کی جائے۔ یہ ملاقات اس سلسلے کی کڑی ہے جہاں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے وزیراعظم اور آرمی چیف نے حال ہی میں افغانستان کے کئی دورے کیے۔‘‘

مبصرین کے بقول پاک افغان حالیہ سرحدی کشیدگی اور قیام امن کے حوالے سے افغان فوجی وفد کا کوئٹہ کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

میجر (ر) عمر فاروق نے مزید کہا، ’’جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو گا پاکستان مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اس وقت یہاں جو حالات ہیں ان پر افغانستان کی شورش سے براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے فوجی سطح پر تعاون بہت ضروری ہے اور میری ذاتی طور پر یہ رائے ہے کہ باہمی تعاون سے افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔‘‘

نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ پاک افغان امور کے سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر راشد احمد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ہمسایہ ممالک کا کردار بہت اہم ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’افغان امن عمل کے لیے سنجیدہ اور دور اندیشنی پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سےافغانستان شدید عدم استحکام کا شکار ہوا ہے۔ جو عناصر افغان امن عمل کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی سازش کر رہے ہیں ان کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے تحت اقدامات ہونے چاہیں۔‘‘

ڈاکٹر راشد احمد نے کہا کہ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ یہ بہت اہم ہے کہ اب پاک افغان فوجی حکام بھی دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے باہمی کردار ادا کریں ۔

انہوں نے مذید کہا، ’’پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدا ہونے والی دوریوں نے دو طرفہ تعلقات پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ فوجی اور انٹیلی جنس سطح پر مؤثر تعاون سے نہ صرف عسکریت پسندوں کے عزائم ناکام ہوں گے بلکہ افغانستان میں شورش کے خاتمے میں بھی بہت مدد حاصل ہوگی ۔‘‘

’پاکستان اچھا لگتا ہے، لیکن ہمیں یہاں رہنے نہیں دے رہے‘

06:37

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں