پاکستان کے معدنی ذخائر سے مالا مال صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرتے ہوئے نیم فوجی دستے کے کم از کم چار اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستان پولیس کے مطابق نامعلوم مسلح حملہ آور موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور انہوں نے اس گاڑی کو نشانہ بنایا، جس پر پیرا ملٹری فوجی سوار تھے۔ کوئٹہ کے پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز یہ واقعہ کوئٹہ سٹی کے مضافاتی علاقے سریاب کے قریب پیش آیا۔
ان کا تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کارروائی میں کم از کم چار اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ دوسری جانب سکیورٹی اداروں نے مشتبہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے قریبی علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق کوئٹہ ماضی میں بھی ایسی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے اور بلوچ علیحدگی پسند اس شہر میں چھوٹے پیمانے پر کئی مسلح کارروائیاں کر چکے ہیں۔ مرکزی حکومت سے ناراض بلوچ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں صوبے کے معدنی ذخائر سے مزید حصہ دیا جائے۔
اس کے علاوہ مذہبی مسلح تنظمیں بھی اس شہر میں فعال ہیں اور ان کے کارکن بھی ماضی میں متعدد مرتبہ حکومتی اداروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں کر چکے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق وہ اس صوبے میں مذہبی اور علیحدگی پسند گروپوں کی کمر توڑ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی مسلح کارروائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
پاکستان کے سکیورٹی ادارے یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ اس صوبے میں سرگرم مسلح عناصر کو بیرونی ممالک سے امداد مل رہی ہے اور ان کا مقصد چین کی مدد سے شروع ہونے والے سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچانا ہے۔
پاکستان نے اس صوبے میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی نسبت اب اس صوبے میں ہونے والی خونریز کارروائیوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔