کوئٹہ: مستقبل میں دنیا کا ہر شخص اس نام سے واقف کیوں ہو گا؟
20 نومبر 2022
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر اس وقت جتنا بھی ڈیٹا محفوظ ہے، اس کا سائز کیا ہے؟ اور پھر پاکستان کے شہر کوئٹہ کا اس ڈیٹا سے کیا تعلق ہے؟ یہ بات بہت حیران کن بھی ہے اور قدرے پیچیدہ بھی۔
اشتہار
جب انسان نے ابھی بہت زیادہ ترقی نہیں کی تھی تو زندگی سادہ تھی۔ وزن سیر، من، کلوگرام اور ٹنوں میں اور فاصلہ فرلانگ، میل، میٹر یا پھر کلومیٹر بھی۔ لیکن جس رفتار سے انسانیت ترقی کر رہی ہے اور دنیا بدلتی جا رہی ہے، اسی رفتار سے سائنسی ماہرین کے طے کردہ پیمائش اور وزن کے پیمانے بھی چھوٹے پڑتے جا رہے ہیں۔
پیمائش اور اوزان کے ان پیمانوں کا تعین ایک ایسی عالمی کانفرنس کرتی ہے، جو ہر چار سال بعد فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں ویرسائے میں منعقد ہوتی ہے۔ اس کانفرنس کو پیمائش اور اوزان کی جنرل کانفرنس کہتے ہیں اور اس کا انعقاد اوزان اور پیمائشوں کا انٹرنیشنل بیورو کرتا ہے۔
ایسی تازہ ترین عالمی کانفرنس کا انعقاد ویرسائے میں 15 سے 18 نومبر تک ہوا۔ اس جنرل کانفرنس میں دنیا کے 64 ممالک کے اعلیٰ ماہرین اور سائنسی نمائندوں نے حصہ لیا۔ اس میں پیمائشوں اور اوزان کے موجودہ عالمی نظام میں کئی نئے اضافوں کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ اضافے اس کانفرنس کے آخری روز متفقہ طور پر منظور کیے گئے اور ان کے فوری طور پر نفاذ کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ 1991 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اس عالمی کانفرنس نے اپنے مسلمہ معیارات میں نئے اضافوں کا فیصلہ کیا۔
پیمائشی اکائیوں کے عالمی نظاموں میں رواں صدی کے دوران پہلا اضافہ
اس عالمی کانفرنس کے شرکاء کا خیال تھا کہ تیز رفتار سائنسی ترقی اور ورلڈ وائڈ ویب (www) پر محفوظ کیے گئے ڈیٹا کے حجم میں ناقابل یقین رفتار سے جو اضافہ ہو چکا ہے اور جو آئندہ برسوں میں مزید ہو گا، اس کے پیش نظر پیمائشوں اور اوزان کے موجودہ عالمی نظاموں میں بھی توسیع ناگزیر ہو چکی ہے۔
اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن قدم ایک برطانوی سائنس دان ڈاکٹر رچرڈ براؤن نے اٹھایا۔ انہوں نے موجودہ گلوبل یونٹ سسٹمز میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کی پیمائش اور اوزان کے تعین کے لیے سابقوں یا سابقات (prefixes) کی صورت میں اس کانفرنس کے شرکاء کو چار ایسی نئی لیکن جدت پسندانہ اصطلاحات تجویز کیں، جو اتفاق رائے سے منظور کر لی گئیں۔
ڈاکٹر رچرڈ براؤن برطانیہ کی نیشنل فزیکل لیبارٹری سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا، '' وزن اور پیمائش کے یہ چاروں نئے معیارات اسی نوعیت کے سابقات کی مدد سے تیار اور منظور کیے گئے ہیں، جن سے ہم میٹرک سسٹم میں پہلے ہی سے واقف ہیں۔ مثلاﹰ سینٹی گرام کا مطلب ایک گرام کا سوواں اور ملی گرام کا مطلب ایک گرام کا ہزارواں حصہ ہوتا ہے۔‘‘
اشتہار
ڈیٹا سائنس دان بے بس ہو گئے تھے
برطانیہ کی نیشنل فزیکل لیبارٹری کے میٹرولوجی (Metrology) کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر رچرڈ براؤن کے بقول، ''گزشتہ 30 برسوں میں دنیا بھر میں موجود ڈیٹا یا عرف عام میں ڈیٹا سفیئر دن دگنی اور رات چوگنی رفتار سے بڑھتا رہا ہے۔ ڈیٹا ماہرین کو احساس ہو گیا تھا کہ ان کے پاس اب ایسے کوئی الفاظ یا معیارات موجود ہی نہیں، جن کی مدد سے ڈیٹا سٹوریج کی ایسی کسی سطح کو بیان کیا جا سکے۔ اس لیے یہ نئی اصطلاحات لازمی ہو گئی تھیں اور یہ عمل مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔‘‘
پیمائشوں اور اوزان کی امسالہ عالمی کانفرنس اور اس کے فیصلوں کے نتیجے میں اس شعبے کی اعلیٰ ترین بین الاقوامی اتھارٹی یعنی پیمائشوں اور اوزان کے انٹرنیشنل بیورو نے جن چار نئی اصطلاحات کے فوری نفاذ کا فیصلہ کیا، ان کے نام ہیں: رونا (ronna)، کوئٹہ (quetta)، رونٹو (ronto) اور کوئکٹو (quecto)۔
رونا بڑا یا کوئٹہ
اب سوال یہ ہے کہ رونا بڑا ہوتا ہے یا کوئٹہ؟ اس کا جواب: ایک کوئٹہ ایک ہزار رونا کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی بہت بڑے عدد میں ایک کے بعد ستائیس مرتبہ صفر آئے تو وہ ایک رونا ہو گا: 1000,000,000,000,000,000,000,000,000۔ اسی طرح کسی بہت بڑے عدد میں اگر ایک کے بعد تیس مرتبہ صفر آئے، تو وہ ایک کوئٹہ ہو گا: 1000,000,000,000,000,000,000,000,000,000۔
اب بڑی سے بڑی کے مقابلے میں اگر کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا تصور کیا جائے، تو جو نئی اصطلاحات نافذ ہو گئی ہیں، وہ رونٹو اور کوئکٹو ہیں۔ کسی بہت چھوٹے عدد میں صفر اعشاریہ کے بعد مزید ستائیس صفر لگائے جائیں تو وہ ایک رونٹو ہو گا۔
اسی طرح ایک کوئکٹو ایک رونٹو سے بھی ہزار گنا چھوٹا ہو گا اور اس میں کسی عدد میں صفر اعشاریہ کے بعد مزید تیس صفر لگائے جائیں تو ایک کوئکٹو بنے گا۔
کوئٹہ تو پاکستان میں بلوچستان کا دارالحکومت ہے
ویرسائے کی عالمی کانفرنس کے مندوبین نے اپنے برطانوی ساتھی رچرڈ براؤن کی تجاویز میں سے کوئٹہ نامی جس یونٹ کو بھی نیا عالمی معیار مان لیا، اس کا صرف نام ہی پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ جیسا نہیں بلکہ انگریزی میں اس کے ہجے بھی بالکل وہی ہیں۔
ایک ستارہ کیا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ستارہ کیا ہے اور ان ستاروں کی روشنی کیسے پیدا ہوتی ہے؟ کیا ہمارے خون میں شامل آئرن بھی ہماری کائنات کے کسی دوسرے ستارے سے آیا ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک برہنہ آنکھ کے ساتھ ہم چھ ہزار تک ستارے دیکھتے ہیں۔ یہ ہمیں نقطوں کی طرح نظر آتے ہیں کیوں کہ یہ ہم سے ناقابل تصور حد تک دور ہیں۔ حقیقت میں یہ ستارے اجرام فلکی ہیں، جو گرم اور الیکٹرک چارج شدہ گیس پر مشتمل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ان کے اندر اس قدر شدید گرمی اور پریشر ہوتا ہے کہ ہائیڈروجن جیسے ہلکے ایٹمی ذرات ہیلیم سے مل جاتے ہیں اور ان ایٹمی دھماکوں سے ہی ستارے چمکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کائناتی لحاظ سے ایک ستارہ ہمارے دروازے کے بالکل سامنے ہے اور اس کا نام ہے سورج۔ سورج وہ واحد ستارہ ہے، جس کا سائنسدانوں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ زمین کے مقابلے میں سورج بہت بڑا ہے لیکن ستاروں میں یہ ایک بونا ستارہ ہے۔ ہمارا سورج تقریبا بارہ ارب سال تک چمک سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
ماہرین فلکیات نے ستاروں کو ان کی چمک اور روشنی کے رنگ کی بنیاد پر گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ زیادہ تر ستارے ’مین سیکوئینس‘ یا ’بنیادی ترتیب‘ کا حصہ ہیں۔ سرخ ستارے سب سے چھوٹے گروپ کا حصہ ہیں کیوں کہ ان کی ہائیڈروجن آہستہ آہستہ جلتی ہے۔ ان کی عمریں اربوں سال ہو سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa Esa Jpl Caltech
اس دھند میں چھپا یہ وہ بھاری ترین ستارہ ہے جسے خلاءنورد اب تک جانتے ہیں۔ سائنسدانوں کے لیے یہ آج بھی پہیلی ہے کہ اس کی کمیت اتنی زیادہ کیسے ہے؟ یہ سورج سے دو سو ساٹھ گنا بھاری اور دس ملین گنا زیادہ چمکتا ہے۔
تصویر: AP
جب اس کا سارا ایندھن جل جائے گا تو اس کا خاتمہ بطور سُپرنووا ہو گا، جیسے ایک لاش مکمل طور پر پھٹ جاتی ہے یا پھر ایک بلیک ہول پیدا ہو سکتا ہے۔ اس سے نکلنے والے کیمیائی عناصر خلاء میں پھیل جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/CXC/SAO
یہ زندہ مخلوق اور سیاروں کا تعمیری مواد ہے۔ ہم جن اجزا سے بنے ہیں، ہمارے خون میں آئرن وغیرہ، ستاروں سے ہی دنیا تک پہنچے ہیں۔ سورج کی روشنی اور گرمی کے بغیر ہماری زمین ایک مردہ سیارہ ہوتی۔ سورج ہماری زندگی کا ضامن ستارہ ہے۔
تصویر: NASA/CXC/SAO
سیٹلائٹ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ سورج کس قدر اُبل رہا ہے۔ یہ بار بار الیکٹرک چارج شدہ ذرات کے بادل خلا میں اُگلتا ہے۔ یہ شمسی طوفان ہماری زمین تک آتے ہیں اور قطبی روشنیاں انہی کا نتیجہ ہیں۔ یہ شمسی ذرات حساس ٹیکنالوجی اور جانداروں کے لیے خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔
تصویر: AP/NASA
بڑی بڑی دوربینوں سے سائنسدان دور کے ستاروں کے مقناطیسی میدان پر تحقیق کرتے ہیں۔ یہ مقناطیسی میدان ستاروں کے اردگرد کے حالات کو بہتر سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اس طرح زمین جیسا کوئی دوسرا سیارہ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
لیکن ڈاکٹر براؤن نے کوئٹہ کا نام ہی کیوں منتخب کیا؟ انہوں نے ایسا بنا سوچے سمجھے نہیں بلکہ طویل غور و فکر کے بعد کیا۔ گنتی کے نئے عالمی یونٹ کے طور پر کوئٹہ کا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے بالکل کوئی تعلق نہیں۔
اس کے باوجود یہ بات یقینی ہے کہ آئندہ برسوں میں پاکستانی شہر کوئٹہ کے اسی نام سے ایک نئے گلوبل اسٹینڈرڈ یونٹ کے طور پر دنیا کا تقریباﹰ ہر انسان واقف ہو گا۔
نئے سابقات کے لیے شرائط
نئے گلوبل اسٹینڈرڈ یونٹس کے طور پر ان نئے prefixes کے لیے لازمی تھا کہ وہ انگریزی کے حروف آر (r) اور کیو (q) سے شروع ہوتے ہوں۔ اس لیے کہ انگریزی حروف تہجی کے یہی وہ دو حروف ایسے تھے، جنہیں آج تک استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ اس روایت کا احترام بھی لازمی تھا کہ یہ سابقات، جہاں تک ممکن ہو، سننے میں اپنے اپنے پہلے حروف کی یونانی زبان میں سنائی دینے والی آوازوں جیسے لگیں۔
ایک اور شرط یہ تھی کہ بڑے عدد کے لیے استعمال ہونے والا سابقہ انگریزی کے حرف اے (a) پر ختم ہو اور چھوٹے عدد کے لیے استعال ہونے والا سابقہ انگریزی کے حرف او (o) پر۔ اس طرح ڈاکٹر براؤن نے ronna، quetta، ronto اور quecto کی اصطلاحات کی ایجاد کا مرحلہ طے کیا۔
اسپیس فوٹوگرافی: کائنات کے حیران کن مناظر
لندن کی رائل آبزرویٹری ہر سال کائنات کی تصاویر کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ تصاویر سالانہ فلکیاتی فوٹوگرافر مقابلے میں شامل کی جاتی ہیں۔ رواں برس کا انتخاب پیش ہے:
تصویر: Ben Bush
ایک نئے سیارے کا جنم
آسٹریلوی فوٹوگرفر مارٹن پُیو نے مئی سن 2019 میں جنوبی امریکی ملک چلی میں سی ڈی کے دوربین کی مدد کے ساتھ یہ تصویر بنائی۔ انہیں کئی صاف اور شفاف راتوں میں مصنوعی روشنی کا انتہائی ماہرانہ استعمال کرتے ہوئے تصویر بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس تصویر میں ایک نئے سیارے کو جنم لیتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Martin Pugh
آسٹریلیا سے اوپر کا ایک نظارہ
ایک اور آسٹریلوی فوٹوگرافر جے ایوانز نے ایک چمنی میں سے اوپر کی جانب دیکھتے ہوئے آسمان پر ملکی وے کہکشاں کی تصویر بنائی۔ اس تصویر کے لیے ایوانز نے ہائی ریزولیوشن میگا پکسل کیمرے کو پہلی مرتبہ استعمال کیا۔ نتیجہ کسی حد تک مایوس کن خیال کیا گیا۔
تصویر: Jay Evans
سورج گرہن اور وینس
یہ تصویر فوٹوگرافر سیباستیان وولٹمار نے جنوبی امریکی ملک چلی کے مقام لا سیا (La Silla) میں واقع یورپی اسپیس آبزرویٹری میں قیام کے دوران بنائی۔ اس کے لیے انہوں نے انتہائی پیچیدہ کیمرہ تکنیک کا استعمال کیا۔ اس تصویر میں سورج گرہن کے دوران چمکتے سیارے وینس کو کیمرے کی آنکھ سے قبضے میں لیا۔
تصویر: Sebastian Voltmer
شمالی روشنیوں میں لوفوٹین جزیرہ
یہ حیران کن تصویر جرمن فوٹوگرافر اندریاس ایٹل کا کارنامہ ہے۔ اس میں ناروے کے جزیرے لوفوٹین کے اوپر بکھری شمالی لائٹس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایٹل نے اپنے تصویر کو ’ہارمنی لائٹس‘ کا نام دیا ہے۔
تصویر: Andreas Ettl
سدیم کہکشاں کا نظارہ
فوٹوگرافر اینڈی کیسلی نے انتہائی مہارت سے اس غیر معمولی نظارے کو محفوظ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے دور تک دیکھنے والی ایک دوربین کی بھی مدد لی۔ سن 2019 کے موسم گرما میں سیارے سیٹرن کے کنارے پر پھیلی کہکشاں کے منظر کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا اور محفوظ کیا۔
تصویر: Andy Casely
چاند لندن کے اوپر
تین ناکام کوششوں کے بعد برطانوی فوٹوگرافر میتھیو براؤن اس تصویر کو بنانے میں کامیاب ہوئے۔ برطانوی دارالحکومت کے اوپر آسمان میں ایک بلند و بالا عمارت کے ماتھے پر چمکتے چاند کی یہ حسین تصویر بیٹمین فلم کے خیالاتی گوتھم شہر کے منظر جیسا ہے۔ ایسی تصویر کو بنانے کے لیے چند منٹ ہی ہوتے ہیں کیونکہ پھر منظر بدل جاتا ہے۔
تصویر: Mathew Browne
قطب شمالی پہ رنگوں کا رقص
قدرتی منظر کی تصاویر بنانے میں شہرت رکھنے والے فوٹوگرافر بین بُش نے یہ تصویر آئس لینڈ کے قرب میں قطب شمالی کے ایک مقام میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بنائی۔ جب وہ تصویر بنا رہے تھے تو اس وقت درجہٴ حرارت منفی چھ سنٹی گریڈ سے زیادہ تھا۔
تصویر: Ben Bush
7 تصاویر1 | 7
چند حیران کن مثالیں
۔ ایک الیکٹران کی کمیت تقریباﹰ ایک رونٹوگرام ہوتی ہے۔
۔ کسی موبائل فون میں محفوظ ڈیٹا کی ایک بائٹ کی کمیت ایک کوئکٹوگرام ہوتی ہے۔
۔ زمین کے نظام شمسی کے پانچویں اور مجموعی طور پر سب سے بڑے سیارے مشتری کی کمیت صرف دو کوئٹہ گرام بنتی ہے۔
۔ اسی طرح پوری کی پوری قابل مشاہدہ کائنات کا قطر محض ایک رونامیٹر بنتا ہے۔
ڈاکٹر رچرڈ براؤن کے الفاظ میں، ''چیزیں پھیلتی جا رہی ہیں اور ہمیں نت نئے الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ پچھلی صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا ایک بالکل مختلف جگہ بن چکی ہے۔‘‘
مقبول ملک (اے پی کے ساتھ)
کھیلوں کی مصنوعات کو تبدیل کرتی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی
اسپو میونخ میں فٹ بال پلے گراؤنڈ کے بجائے اسمارٹ فون اور کمپیوٹرز پر کھیلی جا رہی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے حیرت انگیز طور پر کھیلوں کو تبدیل کر دیا ہے اور اب کھيلوں کی مصنوعات بھی ٹیکنالوجی کی وجہ تبدیل ہو رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Aftab
ای اسپورٹس ارینا
اسپو میونخ 2019 میں پہلی مرتبہ ای گیمز کے شائقین کے لیے ’ای اسپورٹس ارینا‘ بھی تیار کيا گيا ہے۔ اس ارینا میں ای فٹبال اور ای باسکٹ بال کے مقابلے بھی منعقد کیے گئے۔ ای اسپورٹس ٹورنامنٹ میں جرمن فٹ بال کلب بائرن میونخ کی ایک ٹیم خاص طور پر شامل کی گئی۔
تصویر: DW/I. Aftab
ورچوئل ریئيليٹی گیمز
اسپو میونخ کے ڈيجٹلائیزیشن سیکشن میں شرکاء ورچوئل ريئیليٹی گیمز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ورچوئل گلاسز لگائیے اور حیرت انگیز وی آر گیمز کا مزہ لیجیے۔
تصویر: DW/I. Aftab
اسمارٹ اسپورٹس ویئر
اب شدید سرد موسم کے لیے متعدد گرم ملبوسات یا جوتے خریدنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسمارٹ دستانے، اسمارٹ ٹوپی اور جوتوں کے اسمارٹ سول میں گرمی کی شدت ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کی جاسکتی ہے۔ بلو ٹوتھ کے ذریعے موبائل ایپ کے ساتھ دستانوں اور ٹوپی کی ہیٹنگ کنٹرول کی جاسکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Aftab
آؤٹ ڈور واٹر اسپورٹس ولیج
اسپو میونخ میں واٹر اسپورٹس کے شائقین کے لیے بھی بہت کچھ دیکھنے کو موجود ہے۔ واٹر اسپورٹس ولیج میں بچوں کو سرفنگ، انڈر واٹر ڈائیونگ اور سوئمنگ کی تربیت دی جا رہی ہے۔ واٹر اسپورٹس ولیج کے سوئمنگ پول میں واٹر پولو اور واٹر یوگا بھی پیش کیا گیا۔ علاوہ ازیں یہاں واٹر اسپورٹس کی مصنوعات اور ملبوسات بھی پیش کی جا رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Aftab
فِٹ رہیے لیکن حفاظت کے ساتھ
اسپو میونخ میں ایک پولین ’ہیلتھ اور باڈی فٹنس’ کے نام رہا، جہاں فٹنس ٹریننگ اور ڈانس کی ورکشاپس دی گئیں۔ جاگنگ کے دوران شاہراہ پر چلتی گاڑیوں اور دیگر افراد کو خود سے محتاط رکھنے کے لیے ورزش اور جاگنگ کی ملبوسات میں مختلف رنگوں کی ’ایل ای ڈی‘ بتیاں کافی شائقين کو بھائيں۔
تصویر: DW/I. Aftab
ونٹر اسپورٹس کے شائقین کے لیے بھی بہت کچھ
آئس اسکيئنگ اور اسکی ریسنگ جیسی ونٹر اسپورٹس کی جب بات ہو تو اسپو میونخ کا نام کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ اسپو میونخ میں موسم سرما کے کھیلوں کی مصنوعات بنانے والی کمپنیاں جدید اور پائیدار اسپورٹس ویئر اور گُڈز پیش کرتی ہیں، جن میں اسکینگ بورڈ، اسکی گلاسز، اسکینگ بوٹس اور دیگر مصنوعات شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Aftab
چِکنی برف پر مضبوط گرفت سے چلنے والے جوتے
موسم سرما میں برف باری کے بعد سڑک پر چلنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ربڑ کی سول میں نسب چودہ سے انیس اسٹیل کے سپائکس سے تیار کردہ ’بی یو گرپ’ نامی اس نوکیلے جوتے نے اب برف پر چلنا آسان بنا دیا ہے۔
تصویر: DW/I. Aftab
اسپورٹس صنعت میں خواتین کا کردار
اسپو میونخ 2019 میں خصوصی طور پر اسپورٹ صنعت سے وابستہ خواتین ایتھلیٹس، کاروباری خواتین اور خواتین صارفین کے لیے تقریبات منعقد کی گئیں تاکہ اسپورٹس صنعت میں پيشہ وارانہ خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے سکیں۔
تصویر: DW/I. Aftab
’میڈ ان پاکستان‘
اسپو میونخ میں ایک سو پچاس سے زائد پاکستانی نمائش کنندگان نے ’سپلائی اور مینوفیکچر‘ کے شعبے میں شرکت کی۔ بيشتر نمائش کنندگان کا تعلق پاکستان میں اسپورٹس صنعت کے مرکز سیالکوٹ سے ہے۔ میڈ ان پاکستان مصنوعات میں فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، باکسنگ گلووز کے ساتھ ساتھ دیگر اسپورٹس ویئر شامل ہيں۔
تصویر: DW/I. Aftab
برف باری نے اسپو میونخ کا مزہ دوبالہ کر دیا
رواں برس موسم سرما میں میونخ کے زیادہ تر حصے کو برف نے ڈھکے رکھا۔ برف باری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسپو نمائش کے منتظمین نے ’میونخ میسے’ یعنی نمائش گاہ کے اندر بھی کوہ پیمائی کے دوران استعمال کیے جانے والے خاص خیمے لگا رکھے ہیں۔