کوئی بھی طالب علم ہاتھ ملانے سے انکار نہیں کر سکتا
25 مئی 2016سوئٹزرلینڈ کی باسل کاؤنٹی کے شہر تھیروِل میں یہ واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا تھا جس کے بعد اس پر سوئٹزرلینڈ بھر میں عوامی رد عمل سامنے آیا۔ شام سے تعلق رکھنے والے 14 اور 15 برس کی عمر کے ان دونوں طالب علموں بھائیوں کا کہنا تھا کہ اسلام میں کسی غیر خاتون کے ساتھ جسمانی اتصال یا تعلق منع ہے۔ علاقائی تعلیمی انتظامیہ کی طرف سے یہ فیصلہ آج بدھ 25 مئی کو سامنے آیا ہے۔
علاقائی تعلیمی انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد اگر طالب علم اپنے اساتذہ سے مصافحے سے انکار کرتے ہیں تو ان کے والدین یا سرپرستوں کو جرمانہ ادا کرنا ہو گا جو 5000 سوئس فرانک تک ہو سکتا ہے۔ یہ رقم پانچ ہزار امریکی ڈالرز یا پاکستانی روپوں میں پانچ لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے۔ تعلیمی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’ایک استاد کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ مصافحہ کرنے کا مطالبہ کرے۔‘‘
اسکول انتظامیہ کی طرف سے ابتداء میں مسلمان طالب علموں کو اس بات کی چھُوٹ دے دی گئی تھی کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے اساتذہ سے مصافحہ نہ کریں خواہ وہ مرد استاد ہو یا خاتون۔ اس فیصلے کا مقصد خاتوان اساتذہ کو امتیازی سلوک سے بچانا تھا۔ علاقائی انتظامیہ کی طرف سے اس فیصلے کے بعد مسلمان طالب علموں سے یہ سہولت واپس لے لی گئی ہے۔
اسکول انتظامیہ کی طرف سے یہ فیصلہ علاقائی تعلیمی انتظامیہ سے کسی قسم کے مشورے کے بغیر کیا گیا تھا اور اس پر سوئٹزرلینڈ بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا کیونکہ سوئٹزرلینڈ میں ایک استاد سے مصافحہ کرنا دراصل اس کی عزت کے اظہار کے طور پر لیا جاتا ہے۔
آج بدھ کے روز اس فیصلے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’صنفی مساوات کے حوالے سے عوامی مفاد اور غیر ملکیوں کا سوئس معاشرے میں انضمام طالب علموں کے عقائد کی آزادی سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘
مذکورہ اسکول کی طرف سے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’اب اس بات کی وضاحت ہو گئی ہے کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔‘‘ اسکول کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے مذکورہ طالب علموں کے والدین کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔