چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ہانگ کانگ اب بہت زیادہ آزاد ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ کچھ معاملات میں اس نیم خود مختار چینی علاقے کے معاملے میں کسی کو ’سرخ لکیر‘ عبور نہیں کرنے دی جائے گی۔
اشتہار
آج ہفتے کے روز چین نواز خاتون سیاستدان کیری لَیم نے ہانگ کانگ کی نئی سربراہ کے طور پر حلف بھی اٹھا لیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے چینی صدر شی جن پنگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین کی سلامتی اور خود مختاری یا مرکزی حکومت کو لاحق ہونے والا کوئی بھی خطرہ ایک ’سرخ لکیر‘ ہے اور اس لکیر کو پار کرنے کی کسی کو بھی قطعاﹰ اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہانک کانگ کے چین کے ساتھ دوبارہ الحاق کے بیس برس مکمل ہونے پر آج منائی جانے والی تقریبات میں چینی صدر نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے ایک نشریاتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں ہانگ کانگ اب بہت زیادہ آزادی سے لطف اندوز ہو رہا ہے لیکن قومی سلامتی سے جڑے کچھ معاملات ایسے ہیں، جن پر ’سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘۔
شی جن پنگ نے مزید کہا کہ ہانگ کانگ کے آئین کی خلاف ورزی یا اس شہر کو باقی ماندہ چین کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے یکم جولائی بروز ہفتہ جب یہ پیغام دیا تو ہانگ کانگ میں سینکڑوں مظاہرین چین مخالف مظاہرے بھی کر رہے تھے۔
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
10 تصاویر1 | 10
میڈیا رپورٹوں کے مطابق پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا۔ برطانیہ نے سن 1997 میں ہانگ کانگ کو واپس چین کے حوالے کر دیا تھا اور تب سے وہاں ’ایک ملک، دو نظاموں‘ کے تحت ریاستی انتظامات چلائے جا رہے ہیں۔
قبل ازیں ہفتے کے دن ہی چین نواز خاتون سیاستدان کیری لَیم نے ہانگ کانگ کی نئی سربراہ کے طور پر حلف بھی اٹھا لیا۔ بتایا گیا ہے کہ ایک شاندار تقریب میں انہوں نے ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹیو کا حلف اٹھایا اور اس موقع پر چینی صدر بھی موجود تھے۔ جس مقام پر حلف برداری کی تقریب کا انعقاد کیا گیا، وہیں قریب ہی جمہوریت نواز مظاہرین نے اپنا احتجاج بھی جاری رکھا۔
چین کے نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ کی الیکشن کمیٹی نے انسٹھ سالہ کیری لَیم کو مارچ میں اس عہدے کے لیے منتخب کیا تھا تاہم ہانگ کانگ کے شہری اس بیجنگ نواز سیاستدان کو اپنی رہنما تصور نہیں کرتے۔
ہانگ کانگ میں پہلی خاتون سربراہ بننے کا اعزاز حاصل کرنے والی لَیم کا کہنا ہے کہ ان کی اولین ترجیح یہ ہو گی کہ وہ عوامی اختلافات کو ختم کرائیں۔ لَیم نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے چیف ایگزیکٹیو لیونگ چُن یِنگ کی جگہ یہ منصب سنبھالا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ہانگ کانگ کی الیکشن کمیٹی کے زیادہ تر ارکان کا انتخاب عوام نہیں کرتے بلکہ انہیں نامزد کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہی کمیٹی خطے کے چیف ایگزیکٹیو کو چنتی ہے۔