کوئی شکایت ہے تو رابطہ کریں، فرانسیسی ڈرگ ڈیلرز کا نوٹس
13 فروری 2023
پیرس کی ایک بلندوبالا رہائشی عمارت میں آویزاں کیے گئے ایک نوٹس میں ڈرگ ڈیلرز نے واضح کیا گیا ہے کہ وہ اس عمارت کے باسیوں کو تنگ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ کہ کوئی بندہ بھی ان کے ملازمین کے کاموں میں رخنے مت ڈالے۔
اشتہار
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع ایک بلند وبالا رہائشی عمارت میں آویزاں کیے گئے ایک نوٹس نے اس بلڈنگ کے باسیوں کو ایک عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ شہر کے پرشین ڈسٹرکٹ میں واقع اس ہائی رائز بلڈنگ میں یہ نوٹس مبینہ طور پر ڈرگ ڈیلرز نے لگایا تھا۔
اس نوٹس میں تحریر ہے کہ مقصد کسی کو تنگ کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ڈرگ ڈیلرز اس عمارت کے رہائشیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے ملازمین کو اس عمارت میں اپنی کاروباری مصروفیات کے دوران تنگ نہ کیا جائے۔
یہ عمارت پیرس کے جس علاقے میں واقع ہے، وہاں حالیہ دنوں میں ڈرگ مافیا کی موجودگی بڑھی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس مقام پر متعدد ڈرگ ڈیلرز فعال ہیں، جو نشہ آور مواد کی ڈیلیوری گھروں پر کرتے ہیں۔
نوٹس میں اہم پیغام کیا تھا؟
پیرس کی اس بلڈنگ کی لفٹ پر آویزاں کیے گئے اس نوٹس میں ڈرگ ڈیلرز نے مزید لکھا کہ 'اس عمارت میں نہ تو زیادہ گند مچایا جائے گا اور نہ ہی شور کیا جائے گا۔ ملازمین خاموشی سے اپنا کام کریں گے‘۔
اس نوٹس میں یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ اس بلڈنگ کے رہائشی ڈرگ ڈیلرز کے ملازمین کو ہراساں مت کریں۔ مبینہ طور پر یہ نوٹس اس عمارت میں رہنے والے ڈرگ ڈیلرز کی طرف سے لگایا گیا ہے۔
اس نوٹس میں مزید لکھا گیا کہ 'ہم آپ کی روزمرہ کی زندگی میں خلل نہیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف اپنا کام کرنا چاہتے ہیں‘۔
اس نوٹس کی تصویر فرانس کے روزنامہ لے پریسنین نامی اخبار نے اپنی ہفتے کے اشاعت میں شائع کی۔
اس نوٹس میں یہ بھی لکھا ہے کہ 'ملازمین پر چیخا یا چلایا نہ جائے۔ اگر کوئی شکایت یا مسئلہ ہے تو ہم سے رابطہ کرنے سے مت ہچکچایا جائے۔‘‘
اس بلڈںگ کے کچھ رہائشیوں نے اس نوٹس کو ایک مذاق کے طور پر لیا ہے تو کچھ کا خیال ہے کہ یہ اشتعال انگیزی ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ڈرگ ڈیلرز نے انہیں انتہائی غیر محسوس طریقے سے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے کاموں میں خلل ڈالا گیا تو وہ پرتشدد کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔
ع ب، ع ت (خبر رساں ادارے)
جرمنی: نت نئی منشیات کی ’تجربہ گاہ‘
آج کل دنیا بھر کی خفیہ لیبارٹریوں میں جو منشیات تیار کی جا رہی ہیں، اُن میں سے بیشتر کے پیچھے جرمن سائنسدانوں، فوج اور کاروباری اداروں کی اختراعی اور تخلیقی قوتیں اور جوش و جذبہ کارفرما رہا ہے۔
منشیات کے ذریعے حملہ
1939ء میں پولینڈ پر اور 1940ء میں فرانس پر کیے جانے والے حملوں میں ہٹلر نے ایسے فوجی سرگرمِ عمل کیے، جن کی استعدادِ کار کو کیمیاوی مادوں کی مدد سے بڑھایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف فرانس پر حملے کے دوران لڑنے والے دستے کو ہی پیرویٹین کی ’ٹینک چاکلیٹ‘ کہلانے والی پینتیس ملین گولیاں کھلائی گئی تھیں۔ دوسری طرف اتحادی افواج بھی کچھ ایسا ہی کر رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Bildarchiv
بیدار، نڈر اور بھوک سے بے نیاز
نازی جرمن فوج کی اس حیران کُن گولی کو سب سے پہلے ایک جاپانی نے مائع شکل میں تیار کیا تھا۔ برلن کی ٹیملر ورکس کمپنی کے کیمیا دانوں نے اس پر تحقیق کو آگے بڑھایا اور 1937ء میں ایک پیٹنٹ کا اندراج کروایا۔ ایک ہی سال بعد یہ باقاعدہ ایک دوا کے طور پر بازار میں آ گئی۔ اس دوا سے تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور ڈر جاتا رہتا تھا۔ آج یہی ’پیرویٹین‘ غیر قانونی طور پر ایک اور نام ’کرسٹل مَیتھ‘ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔
خود ہی سب سے بڑا گاہک؟
مؤرخین کے مابین اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اڈولف ہٹلر خود بھی پیرویٹین کا نشہ کرتا تھا۔ ان کے ذاتی معالج تھیو موریل کی فائلوں میں اکثر نمایاں طور پر حرف ’ایکس‘ لکھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ یہ کس دوا کی جگہ لکھا جاتا ہو گا۔ اتنی بات یقینی تصور کی جاتی ہے کہ ہٹلر کو بہت ہی سخت قسم کی ادویات دی جاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر آج کل کے ضوابط کی رُو سے ممنوع قرار پائیں گی۔
نت نئی منشیات بنانے والوں کی سرگرمیاں نازی دور سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ جرمنی کی بائر کمپنی آج ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی نے اُنیس ویں صدی کے اواخر میں اپنی ایک بہت زیادہ بکنے والی دوا کا اشتہار کچھ ان الفاظ کے ساتھ دیا تھا: ’’ہیروئن کی بدولت کھانسی ختم۔‘‘ اس کے فوراً بعد مرگی، دمے، شیزوفرینیا اور دل کے عوارض کے لیے بچوں تک کو ہیروئن دی جانے لگی۔ اس دوا کا ضمنی اثر قبض بتایا گیا تھا۔
تخلیقی ذہن کے حامل کیمیا دان
فیلکس ہوفمان کو خاص طور پر اُن کی ایجاد کردہ اسپرین کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یونہی سرِ راہے وجود میں آیا، جب وہ سرکے کے تیزاب کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔اسپرین کے برعکس اس بار اس کیمیا دان نے اس تیزاب کو مارفین یعنی پوست کے خشک ہو چکے جوس کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ’ہیروئن‘ جرمنی میں 1971ء میں پابندی لگنے سے پہلے تک قانونی طور پر فروخت ہوتی رہی۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کے لیے کوکین
جرمن شہر ڈارم اشٹٹ کے ادارے مَیرک نے 1862ء ہی میں کوکین کی پیداوار شروع کر دی تھی، تب آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اسے اپنے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی تیاری کے لیے البرٹ نیمان نامی جرمن محقق ایک عرصے تک جنوبی امریکا سے آئے ہوئے کوکا کے پتوں کے ساتھ تجربات کرتا رہا تھا۔ نیمان کوکین تیار کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گیا تھا لیکن کوکین سے نہیں بلکہ نمونیے سے۔
تصویر: Merck Corporate History
’جوش اور کام کرنے کی صلاحیت‘
بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں کوکین کو بے ضرر قرار دیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنے سے انسان کے اندر جوش بھر جاتا ہے، وہ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ بعد میں ایک دوست کے منشیات کے استعمال کے نتیجے میں انتقال کے بعد فرائیڈ کے کوکین کے بارے میں جوش و خروش میں بھی کمی آئی۔ تب ڈاکٹر سر درد اور پیٹ درد کے لیے بھی کوکین کے استعمال کی ہدایت کرتے تھے۔
تصویر: Hans Casparius/Hulton Archive/Getty Images
ایکسٹیسی کا فراموش کردہ پیٹنٹ
امریکی کیمسٹ الیگزینڈر شَلگن کو آج کے دور میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا ایکسٹیسی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رنگا رنگ ٹیبلٹ کی تیاری کا ابتدائی نسخہ جرمن دوا ساز ادارے مَیرک نے تیار کیا تھا۔ 1912ء میں اس ادارے نے ایک بے رنگ تیل کو ایم ڈی ایم اے کے نام سے پیٹنٹ کروایا تھا۔ اُس دور میں کیمیا دانوں نے اس مادے کو کاروباری مقاصد کے لیے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/epa/Barbara Walton
جرمن کیمیا دانوں کے کارناموں کی باز گشت آج بھی
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2013ء میں دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار انسان غیر قانونی منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ قانونی نشے الکوحل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہیں: عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2012ء کے لیے اندازوں کے مطابق 5.9 فیصد یعنی تقریباً 3.3 ملین اموات الکوحل کے استعمال کا نتیجہ تھیں۔