’کوتوال ہی قانون توڑنے لگے‘: درجنوں پولیس اہلکاروں کو جرمانے
22 اگست 2020
جرمن شہر مائنز میں مقامی محکمہ پولیس کے پچاس کے قریب افسران کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ یہ پولیس اہلکار ایک بار میں پارٹی کے دوران کورونا وائرس کی وبا کے باعث عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔
اشتہار
مائنز شہر کی انتظامیہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ درجنوں پولیس افسران اس سال مئی کے مہینے میں کورونا وائرس کی وبائی بیماری کے پھیلاؤ کے روکنے کے لیے عائد کردہ پابندیوں کو اس وقت شدید طور پر نظر انداز کرنے کے مرتکب ہوئے تھے، جب جرمنی میں یہ وبا اپنے عروج پر تھی۔
ان پولیس اہلکاروں پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک بار میں ہونے والی پارٹی میں اس طرح شرکت کی تھی کہ وہ نہ تو چہروں پر حفاظتی ماسک پہنے ہوئے تھے، نہ ہی وہ سماجی طور پر ایک دوسرے سے محفوظ فاصلے پر تھے اور نہ ہی انہوں نے یہ دھیان رکھا تھا کہ انہیں اتنی بڑی تعداد میں جمع ہو کر کسی پارٹی میں شرکت کرنا ہی نہیں چاہیے تھی۔
سرکاری ترقیوں کا جشن مہنگا پڑا
مائنز کی بلدیاتی انتظامیہ کے ترجمان رالف پیٹرہان واہر نے بتایا، ''یہ چار درجن کے قریب پولیس اہلکار اس پارٹی میں اس لیے شریک ہوئے تھے کہ اپنے چند ساتھیوں کو ملنے والی ترقیوں کا جشن منا سکیں اور ساتھ ہی اپنے ایک اچانک انتقال کر جانے والے ساتھی کی موت کا غم بھی منا سکیں۔‘‘
جی ایس جی نائن، جرمن پولیس کے اسپیشل کمانڈوز
جرمن پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکوڈ کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اس کا ایک اسپیشل یونٹ اب ملکی دارالحکومت برلن میں بھی قائم کیا جائے گا۔ اس اسکواڈ کی تاریخ پر ایک نظر، ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
سخت حالات سے نمٹنے کی صلاحیت
جی ایس جی نائن یعنی بارڈر پروٹیکشن گروپ نائن کی داغ بیل سن انیس سو بہتر میں ڈالی گئی تھی جب عام جرمن پولیس میونخ اولپمکس کے موقع پر اسرائیلی مغویوں کو فلسطینی دہشت گردوں سے آزاد کرانے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Hannibal
عالمی سطح پر مضبوط ساکھ
اسپیشل پولیس اسکواڈ جی ایسی جی نائن نے اپنے پہلے آپریشن میں ہی کامیابی حاصل کر کے اپنی ساکھ بنا لی تھی۔ اس آپریشن کو ’آپریشن فائر میجک‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
مشن مکمل
اولرش ویگنر اس اسکواڈ کے بانی ممبران میں سے تھے۔ انہیں ایک فلسطینی دہشت گرد گروپ کے ہاتھوں موغادیشو میں ایک جہاز کے مسافروں کو رہا کرانے کے باعث ’ہیرو آف موغادیشو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ویگنر کو اس کامیاب مشن کے بعد جرمن حکومت کی جانب سے اُن کی کارکردگی پر اعزاز دیا گیا تھا۔
تصویر: imago/Sven Simon
جرمن اسپیشل کمانڈو سمندر میں بھی
یوں تو جی ایس جی نائن کا کام دہشت گردانہ کارروائیوں اور مغویوں کی رہائی کو اپنی مخصوص مہارت سے روکنا ہوتا ہے تاہم ضرورت پڑنے پر اسے سمندر میں کارروائيوں کے ليے روانہ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Hassenstein
زمین پر بھی مستعد
جرمن پولیس کے اس اسپیشل گروپ کے آپریشن عام طور پر خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس پولیس فورس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک انیس سو آپریشن کیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/U. Baumgarten
دن رات تربیت
جرمن اسپیشل کمانڈوز شب و روز سخت ٹریننگ سے گزرتے ہیں۔ اس تصویر میں کمانڈوز ایک ریلوے اسٹیشن پر دہشت گردوں سے نمٹنے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Carstensen
6 تصاویر1 | 6
تاہم 'قانون کے ان محافظوں‘ کا جرم یہ تھا کہ وہ کئی حوالوں سے کورونا وائرس کے خلاف پابندیوں کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے اور پھر ان کا یہ جرم چھپا بھی نہ رہ سکا۔
ان پولیس افسران کو اب باقاعدہ تحریری وارننگز جاری کر دی گئی ہیں اور ساتھ ہی ان میں سے ہر ایک کو سینکڑوں یورو جرمانہ بھی کر دیا گیا ہے۔
مقامی پولیس کے ایک ترجمان رینالڈو روبیرٹو نے بتایا کہ فی الحال تو ان تمام پولیس افسران کو اپنی اپنی جرمانے کی رقوم ادا کرنا ہوں گی اور اس کے بعد یہ جائزہ لیا جائے گا کہ آیا ان کے خلاف مزید کوئی محکمہ جاتی کارروائی بھی کی جانا چاہیے۔
جرمن شہروں کو جرمانوں سے ہونے والی آمدنی
جرمنی میں ایک تازہ ملک گیر سروے کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران حفاظتی ضابطوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے شہری حکومتوں کو کافی آمدنی بھی ہو رہی ہے۔
ہیمبرگ میں شانزن کا علاقہ کسی میدان جنگ سے کم نہیں
لوٹی ہوئی دکانیں، جلتا ہوا سامان، تیز دھار پانی اور آنسو گیس۔ گزشتہ روز جرمن شہر ہیمبرگ کا یہ حال تھا۔ اس شہر میں دنیا کے بیس اہم ممالک کے سربراہاں اکھٹے ہیں۔ ہنگامہ آرائی میں کئی سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
مظاہروں کا مقصد
مظاہرین سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہوئے ایک ایسے آزادانہ نظام کے حامی ہیں، جس میں پیسے اور حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہو گا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
سیاہ بلاک
ہیمبرگ میں ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے ہنگامہ آرائی میں ملوث بائیں بازو کے سخت گیر موقف رکھنے والے خود کو ’بلیک بلاک‘ یا سیاہ بلاک کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ چند سو افراد آج کل شہ سرخیوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
بلیک بلاک کون ہیں؟
بلیک بلاک عام طور پر سخت گیر موقف رکھنے والے بائیں بازو کے افراد ہیں اور ان میں انارکسٹ یا افراتفری پھیلانے والے بھی شامل ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ باقاعدہ کوئی منظم تنظیم تو نہیں بلکہ احتجاج کا ایک انداز ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ میں لوٹ مار
تشدد پر آمادہ کئی سو افراد نے ہیمبرگ کے علاقے ’شانزن فیئرٹل‘ میں رات پھر ہنگامہ آرائی کی۔ اس دوران دکانوں کو لوٹا گیا اور املاک کو آگ لگائی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
اضافی نفری
تین گھنٹوں کے بعد پولیس کی اضافی نفری طلب کی گئی اور تشدد پر آمادہ ان مظاہرین کو کچھ حد تک پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئی۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
تیز دھار پانی
مظاہرین کے خلاف پولیس کو تیز دھار پانی کا استعمال کرنا پڑا اور چند مقامات پر تو آنسو گیس کے گولے بھی برسائے۔ اس دوران حکام نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضا سے بھی نگرانی جاری رکھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader
تبدیلی کا وقت آ گیا ہے
بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں مظاہرین نے کشتیوں کے ذریعے بھی احتجاج کیا۔ تحفظ ماحول کی تنظیم گرین پیس نے پیرس معاہدے سے دستبرداری کے امریکی فیصلے کو تنقید کا نشایا بنایا۔
تصویر: Reuters/F. Bimmer
پولیس پر حملے
مشتعل مظاہرین نے مختلف مقامات پر پولیس پر شیشے کی خالی بوتلیں برسائیں اور پتھراؤ بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ کا حال
ہیمبرگ کا شانزن فیئرٹل خانہ جنگی کے شکار کسی شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ حکام کے مطابق اس دوران 213 پولیس افسر زخمی ہوئے جبکہ دو سو سے زائد مظاہرین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/D. Bockwoldt
ہفتے کے دن کا پرسکون آغاز
رات کے مختلف اوقات میں جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے بعد ہفتے کی علی الصبح حالات پولیس کے قابو میں تھے۔ تاہم اس کے بعد مظاہرین نے پھر سے اکھٹے ہونا شروع کر دیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/C.Rehder
10 تصاویر1 | 10
مثال کے طور پر شمالی جرمن شہر ہیمبرگ میں اب تک ایسی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو دس ہزار سے زائد واقعات میں کیے جانے والے جرمانوں کی وجہ سے تقریباﹰ نو لاکھ یورو یا 1.1 ملین امریکی ڈالر کے برابر آمدنی ہو چکی ہے۔
اسی طرح جنوبی شہر میونخ میں ساڑھے نو ہزار شہروں کو کیے گئے جرمانوں سے تقریباﹰ ساڑھے نو لاکھ یورو حاصل ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ فرینکفرٹ شہر کی انتظامیہ کو ڈھائی ہزار افراد کو کیے گئے جرمانوں سے ساڑھے چھ لاکھ یورو اور کولون شہر کی مقامی حکومت کو سوا پندرہ سو افراد کو کیے گئے جرمانوں سے ساڑھے تین لاکھ یورو سے زائد کی رقوم مل چکی ہیں۔
جرمن شہروں اور بلدیاتی علاقوں کی وفاقی تنظیم کے سربراہ کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے عائد کردہ پابندیوں کے احترام کا رجحان بہت زیادہ ہے اور عوام کی بہت بڑی اکثریت ان ضابطوں پر عمل کر رہی ہے، ''تاہم جو شہری ایسا نہیں کرتے، انہیں اس کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے، جو کافی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
م م / ع ب (ڈی پی اے)
گزشتہ برس جرمنی میں کس نوعیت کے کتنے جرائم ہوئے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تازہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں ملک میں رونما ہونے والے جرائم کی شرح اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں قریب دس فیصد کم رہی۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
2017ء میں مجموعی طور پر 5.76 ملین جرائم ریکارڈ کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 9.6 فیصد کم ہیں۔
تصویر: Imago/photothek/T. Imo
ان میں سے ایک تہائی جرائم چوری چکاری کی واردتوں کے تھے، یہ تعداد بھی سن 2016 کے مقابلے میں بارہ فیصد کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.-C. Dittrich
دوکانوں میں چوریوں کے ساڑھے تین لاکھ واقعات ریکارڈ کیے گئے جب کہ جیب کاٹے جانے کے ایک لاکھ ستائیس ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
گزشتہ برس ملک میں تینتیس ہزار سے زائد کاریں اور تین لاکھ سائیکلیں چوری ہوئیں۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
گزشتہ برس قتل کے 785 واقعات رجسٹر کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 3.2 فیصد زیادہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tnn
منشیات سے متعلقہ جرائم میں نو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا، ایسے تین لاکھ تیس ہزار جرائم رجسٹر کیے گئے۔
تصویر: Reuters
چائلڈ پورن گرافی کے واقعات میں 14.5 فیصد اضافہ ہوا، ایسے ساڑھے چھ ہزار مقدمات درج ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Nissen
سات لاکھ چھتیس ہزار جرائم میں غیر ملکی ملوث پائے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں تئیس فیصد کم ہے۔