کوربن کا جانسن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا عزم
15 اگست 2019
برطانیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت کے رہنما نے ملکی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس مناسبت سے برطانوی سیاسی حلقوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/House of Commons
اشتہار
جیریمی کوربن جو بائیں بازو کی اپوزیشن جماعت 'لیبر پارٹی‘ کے رہنما ہیں، نے برطانیہ کی دیگر سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کے اراکین کو ایک خط میں لکھا کہ موجودہ حکومت کے پاس بریگزیٹ کے حوالے سے کوئی مینڈیٹ نہیں ہے لہذا وہ اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پارلیمان پیش کریں گے۔
جیریمی کوربن نے اس خط میں مزید لکھا کہ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو اس صورت میں وہ عبوری حکومت کے وزیر اعظم ہوں گے ، عام انتخابات کا مطالبہ کریں گے اور آرٹیکل 50 کی توسیع کریں گے۔ آرٹیکل 50 کے تحت برطانیہ یورپی یونین کا رکن ہے۔
جیریمی کوربن نے اس خط میں مزید لکھا کہ عام انتخابات کی مہم کے دوران لیبر پارٹی عوام سے یورپی یونین سے انخلاء کی شرط پر ووٹ حاصل کرے گی۔ کوربن کے خط میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ مہم میں برطانوی عوام کو یہ آپشن بھی حاصل ہو گا کہ وہ یورپی یونین کی رکنیت برقرار رکھنے کے حق میں بھی ووٹ دے سکیں گے۔
برطانیہ کے نئے وزیراعظم بورس جانسن نے یورپی یونین سے انخلا کے لیے اکتیس اکتوبر کو حتمی تاریخ قرار دے رکھا ہے۔ دوسری جانب جانسن حکومت کے ایک ترجمان نے لیبر پارٹی کے رہنما کے خط پر رد عمل ظاہر کرتے ہوسے واضح کیا کہ وہ اگر وزیراعظم بن جاتے ہیں تو بریگزیٹ پر ہونے والے ریفرنڈم کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو تباہ کر دیں گے۔
حکومتی ترجمان کے مطابق وزیراعظم بورس جونسن ریفرنڈم کا احترام کریں گے اور نیشنل ہیلتھ سروس اور پولیس کے محکموں کے لیے مزید سرمایہ کاری کا وعدہ پورا کریں گے۔
حزب اختلاف کی جماعت لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما جو سوئنسن نے کوربن کے خط پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا،'' کوربن کو پارلیمان میں عارضی طور پر بھی اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ کچھ پارلیمانی اراکین نے کوربن کی حمایت کا عندیہ بھی دیا ہے۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کے رکن آئن بلیکفورڈ نے کہا کہ اُن کی پارٹی موقع حاصل ہونے پر موجودہ وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دے گی۔
گرین پارٹی کی رکن کیرولینا لیوکس نے کہا وہ بورس جونسن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دیں گی لیکن کوربن کے بجائے کسی اور شخص کی قیادت میں عبوری حکومت کی قیادت چاہتی ہیں۔
ب ج/ ع ق
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔