کورونا اور جرمن معیشت: سات سال بعد برآمدات میں پہلی بار کمی
9 فروری 2021
دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت جرمنی کی اقتصادی کارکردگی میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث تنزلی کے نتیجے میں گزشتہ برس سات سال بعد ملکی برآمدات کی مالیت میں پہلی بار کمی ہوئی، جو نو فیصد کے برابر رہی۔
جرمن شہر بریمن میں بریمرہافن کی بندرگاہ: جرمن ادارے بی ایم ڈبلیو کی تیار کردہ برآمدی گاڑیاں اور ایک مال بردار بحری جہازتصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
اشتہار
جرمن معیشت بنیادی طور پر ایک برآمدی معیشت ہے اور اسی لیے اس کی سالانہ کارکردگی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک کی مجموعی برآمدات کی صورت حال کیسی رہی۔ دو ہزار بیس کے دوران جب کورونا وائرس کی عالمی وبا اپنے عروج پر تھی اور اس مرض نے کروڑوں انسانوں کو بیمار اور لاکھوں کو ہلاک کر دینے کے علاوہ عالمی معیشت کو بھی انتہائی بری طرح متاثر کیا تھا، جرمن برمدآت کی مالیت میں 9.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
وفاقی جرمن دفتر شماریات کی طرف سے منگل نو فروری کو جاری کردہ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2020ء میں ملکی برآمدی شعبے کی کارکردگی میں اتنی کمی ہوئی کہ ایسی تنزلی 2009ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
اس کے علاوہ 2013ء کے بعد 2020ء میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ ملکی برآمدات کی مالیت میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی۔
آج کل جرمنی ایک ہزار ارب یورو سے زیادہ مالیت کی مصنوعات دنیا کو برآمد کر رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو جرمنی کے دَس کامیاب ترین برآمدی شعبوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
ہنگامہ خیز ... لیکن ٹاپ ٹین کی منزل سے ابھی دُور
ایک زبردست منظر: ایک زرعی فارم کے بالکل قریب سے گزرتا ایک کئی منزلہ بحری جہاز، جو کل کلاں کئی ہزار سیاحوں کو لے کر دُنیا کے وسیع و عریض سمندروں پر محوِ سفر ہو گا۔ جرمن شہر پاپن برگ میں تیار کردہ اس جہاز کو دریائے ایمز کے راستے بحیرہٴ شمالی میں لے جایا جا رہا ہے۔ صوبے لوئر سیکسنی کے اس بڑے کاروبار کی جرمن برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں شمولیت کی منزل لیکن ابھی کافی دُور ہے۔
تصویر: AP
غیر مقبول برآمدی مصنوعات
رائفلز ہوں، آبدوزیں یا پھر لیپرڈ نامی ٹینک، دُنیا بھر میں ’میڈ اِن جرمنی‘ ہتھیاروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ امن پسند جرمن معاشرے کے لیے یہ کامیابی کسی حد تک تکلیف دہ بھی ہے۔ ویسے یہ کامیابی اتنی بڑی بھی نہیں کیونکہ جرمنی کے اصل برآمدی سٹار (ٹاپ ٹین فہرست میں نمبر نو اور دَس) بحری جہاز اور ٹینک نہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی اَشیائے خوراک یا پھر ربڑ اور پلاسٹک سے بنی مصنوعات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
دھاتیں
جرمن محکمہٴ شماریات نے ابھی ابھی اپنے جو سالانہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن میں گزشتہ سال کی سُپر سٹار جرمن برآمدی مصنوعات میں ساتویں نمبر پر ’دھاتیں‘ ہیں مثلاً المونیم، جس کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے چاکلیٹ کو تازہ رکھا جاتا ہے۔ 2015ء میں جرمنی نے تقریباً پچاس ارب یورو مالیت کی دھاتیں برآمد کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Junos
دیگر قسم کی گاڑیاں
جرمنی میں کاروں کے ساتھ ساتھ اور کئی قسم کی گاڑیاں بھی تیار کی جاتی ہیں مثلاً وہ گاڑیاں، جو کوڑا اُٹھانے کے کام آتی ہیں لیکن اسی صف میں ٹرکوں، بسوں اور اُن تمام گاڑیوں کا بھی شمار ہوتا ہے، جو کاریں نہیں ہیں لیکن جن کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ 2015ء میں جرمنی کی بارہ سو ارب یورو کی مجموعی برآمدات میں سے ان مخصوص قسم کی گاڑیوں کا حصہ ستاون ارب یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ادویات
جرمنی کی دوا ساز صنعت کی ساکھ پوری دُنیا میں بہت اچھی ہے۔ آج بھی اس صنعت کے لیے وہ بہت سی ایجادات سُود مند ثابت ہو رہی ہیں، جو تقریباً ایک سو سال پہلے ہوئی تھیں۔ اگرچہ بہت سی ادویات کے پیٹنٹ حقوق کی مدت ختم ہو چکی ہے تاہم جرمن ادارے اُنہیں بدستور بھاری مقدار میں تیار کر رہے ہیں۔ ان ادویات کی مَد میں جرمنی کو سالانہ تقریباً ستّر ارب یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Endig
برقی مصنوعات
بجلی کام کی چیز بھی ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔ کم وولٹیج کے ساتھ رابطے میں آنا پریشانی کا باعث بنتا ہے لیکن زیادہ وولٹیج والی تاروں سے چھُو جانا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ برقی مصنوعات بنانا مہارت کا کام ہے اور اس حوالے سے جرمن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہے۔ 2015ء میں برقی مصنوعات تیار کرنے والے جرمن اداروں کا مجموعی برآمدات میں حصہ چھ فیصد رہا۔
تصویر: picture alliance/J.W.Alker
ڈیٹا پروسیسنگ آلات اور آپٹک مصنوعات
تقریباً ایک سو ارب یورو کے ساتھ جرمن کے اس برآمدی شعبے کا مجموعی برآمدات میں حصہ آٹھ فیصد سے زیادہ رہا۔ بہت سے جرمن ادارے گزشتہ کئی نسلوں کے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی اعلیٰ معیار کی حامل تکنیکی اور سائنسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں، مثلاً ژَین آپٹک لمیٹڈ نامی کمپنی کا تیار کردہ یہ لیزر ڈائی اوڈ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kasper
کیمیائی مصنوعات
جرمنی کے بڑے کیمیائی ادارے ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ وہ مختلف طرح سے استعمال ہونے والی گیسیں اور مائعات بھی تیار کرتے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ ایک سو ارب یورو سے زیادہ کے کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ بائر اور بی اے ایس ایف جیسے اداروں کا جرمن برآمدات میں حصہ تقریباً دَس فیصد بنتا ہے اور جرمنی کی برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں اس شعبے کا نمبر تیسرا ہے۔
تصویر: Bayer AG
مشینیں
جرمنی: انجینئروں کی سرزمین۔ یہ بات ویسے تو کہنے کو کہہ دی جاتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ جرمنی کی برآمدات میں مشینیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 2015ء میں جرمنی نے مجموعی طور پر 169 ارب یورو کی مشینیں برآمد کیں۔ اس شعبے کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر ہوتا ہے۔ عالمی معیشت بحران کا شکار ہو تو جرمن مشینوں کی مانگ بھی کم ہو جاتی ہے۔
... جی ہاں، کاریں۔ جرمنی کا کوئی اور شعبہ برآمدات سے اتنا نہیں کماتا، جتنا کہ اس ملک کا موٹر گاڑیاں تیار کرنے والا شعبہ۔ جرمن محکمہٴ شماریات کےتازہ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق فوکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے اور ڈائملر جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پُرزہ جات سے جرمنی کو 226 ارب یورو کی سالانہ آمدنی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
10 تصاویر1 | 10
درآمدات کی مالیت 1025 بلین یورو
وفاقی دفتر شماریات کے مطابق گزشتہ برس جرمن برآمدات کی مالیت 1205 بلین یورو رہی، جو 2019ء کے مقابلے میں 9.3 فیصد کم تھی۔ 2009ء میں عالمی مالیاتی بحران کے دوران جرمن برآمدات کی مالیت میں 18.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔
شہر ویزباڈن میں قائم جرمن دفتر شماریات کے مطابق پچھلے سال جرمن درآمدات کی مالیت میں بھی کمی ہوئی، اور ان کا حجم 2019ء کے مقابلے میں 7.1 فیصد کمی کے ساتھ تقریباﹰ 1025 بلین یورو رہا۔ ملکی درآمدات میں اتنی زیادہ کمی بھی 2009ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
کئی دہائیوں سے تیز رفتار کاریں بنانے والی جرمن کمپنی پورشے کی گاڑیاں بے حد پسندیدگی کی سند رکھتی ہیں۔ کاروں کے اس برانڈ کے 70 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW
اپنی نوعیت کی اولین:
8جون 1948ء میں پورشے کی پہلی ڈئزاین کردہ گاڑی 356 No. 1 Roadster کو چلانے کا پرمٹ ملا۔ یہ پہلی گاڑی تھی جس پر پورشے کا نام آویزاں تھا۔ یہ کار جرمنی کے شہر اشٹٹ گاڈ کے پورشےمیوزیم میں دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/b. Hanselmann
356 کے موجد:
پورشے کی پہلی گاڑی فریڈینینڈ اینٹان ارنسٹ پورشے نے ڈیزائین کی تھی۔ پانچ دہائیوں تک وہ پورشے سے بطور سی ای او اور چئیرمین منسلک رہے ۔ ان کے والد فریڈینینڈ پورشے بھی کاریں بنانے کے کام سے وابستہ تھے اور فاکس ویگن کے لیے کاریں بناتے تھے۔
تصویر: Porsche
ابتدائی ناکامی
پورشے کو عوام کے سامنے دوسری عالمی جنگ کے چند برس بعد ہی فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔ تاہم اس وقت ان مشکال حالات میں لوگوں کا رجحان اسپورٹس گاڑیوں کی خرید کی جانب نہیں تھا۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ہی پورشے برانڈ اس دعویٰ کے ساتھ خود کو منوانے میں کامیاب ہوا کہ ’’ ہم وہ گاڑیاں بناتے ہیں جس کی ضرورت کسی کو نہیں لیکن چاہ سب کو ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Porsche Schweiz AG
دنیا بھر میں مقبولیت
پورشے کو تقریباﹰ ایک ملین اسپورٹس کاریں فروخت کرنے میں نصف صدی کا عرصہ لگا۔ تاہم اس کے بعد اس کی فروخت میں اضافہ ہوا اور صرف پانچ برسوں میں ہی اس برانڈ نے اپنی ایک ملین گاڑیاں فروخت کی۔ صرف گزشتہ برس کواٹر ملین گاڑیاں فروخت کرنے میں کامیاب رہا۔
تصویر: picture alliance
ڈیوڈ بمقابلہ گولائیتھ
سن دو ہزار کے وسط میں چھوٹی گاڑیاں بنانے والی کمپنی نے جرمنی کے ایک بڑے برانڈ فاکس ویگن کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اس وقت پورشے ایس ای نامی کمپنی کے پاس فاکس ویگن کے ایک بڑے حصے کی ملکیت ہے جبکہ پورشے کارپوریشن جو گاڑیاں بناتی ہے، اسے فاکس ویگن گروپ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
تصویر: AP
پورشے کے لیے مشکلات
کئی صدیوں سے پورشے گاڑیاں ڈیزل انجنوں پر انحصار کرتی آئی ہیں۔ تاہم SUVs کی مقبولیت بڑھی تو انحصار کا یہ انداز کچھ تبدیل ہو گیا۔ SUVs کے ڈیزل ماڈلز میں فاکس ویگن کے برانڈ Audi کا انجن لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
الیکٹرک گاڑیاں
پورشے کی بجلی سے چلنے والی پہلی گاڑی مارکیٹ میں سن 2019ء میں معتارف کرائی جائے گی۔ اس گاڑی کو بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ پانچ سو کلو میٹر یا 310 میل تک ایک چارج میں سفر کر سکیں گی۔
تصویر: Porsche
ریکارڈ فروخت
اندازہ لگایا گیا ہے کہ فروخت کے اعتبار سے 2018ء پورشے کے لیے ریکارڈ توڑ سال ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Porsche
8 تصاویر1 | 8
بیرونی تجارت کا توازن جرمنی کے حق میں
2020ء میں 1205 بلین یورو کی برآمدات اور 1025 بلین یورو کی درآمدات میں مالیاتی فرق تقریباﹰ 180 بلین یورو رہا۔ یہی مالیاتی فرق وہ تجارتی فائدہ بھی تھا، جو کورونا وائرس کی وبا کے باوجود جرمنی کو پچھلے سال بیرونی تجارت میں ہوا۔
بین الاقوامی اقتصادی ماہرین کے مطابق گزشتہ برس عالمی معیشت میں کساد بازاری کا سال ثابت ہوا تھا مگر اس سال عالمی معیشت کی کارکردگی میں کافی حد تک بحالی کی امید ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کا دوہرا فائدہ بھی جرمنی کو ہو گا کیونکہ ایک تو خود جرمنی معیشت بھی دوبارہ بہتری کی طرف جائے گی اور دوسرے یہ کہ بیرونی دنیا میں اقتصادی بہتری اور گرم بازاری کا فائدہ جرمن برآمدی شعبے کو بھی پہنچتا ہے۔
م م / ع س (ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)
جرمنی کی بہترین کاریں، کتنی ہی یادیں جن سے جڑی ہیں
یہ گاڑیاں دیکھ کر کاروں سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کی آنکھیں بھیگ سکتی ہیں۔ فالکس ویگن سے بی ایم ڈبلیو اور اوپل سے مرسیڈیز بینز تک، جرمن کار ساز اداروں نے کئی شان دار ماڈلز تیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
ٹریبنٹ 601 (1964)
ٹریبنٹ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے ویسی ہی تھی جیسی مغربی جرمنی میں فالکس ویگن بیٹل تھی، یعنی عام افراد میں مقبول۔ اسے تیار کرنا سستا تھا، کیوں کہ اس کی بیرونی باڈی پلاسٹک سے بنائی جاتی ہے۔ جب دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی جرمن سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیگر علاقوں کا رخ کیا، تو یہ گاڑی بھی ہر جگہ دکھائی دینے لگی۔ اب بھی 33 ہزار ٹریبنٹ گاڑیاں جرمن سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Imago/Sven Simon
فالکس ویگن بیٹل (1938)
فالکس ویگن کا یہ سب سے بااعتبار ماڈل کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کار کے 21 ملین یونٹس تیار کیے گئے۔ اسے دنیا کی سب سے مشہور گاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو سن 1938 سے 2003 تک تیار کی جاتی رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فالکس ویگن ٹی ون (1950)
فالکس ویگن کی یہ کیمپر گاڑی جرمنی میں ’بُلی‘ کے نام سے بھی مشہور ہے اور اسے ہپی تحریک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فالکس ویگن ابتدا میں اس گاڑی سے خوش نہیں تھی، مگر اس کی فروخت پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب تک فالکس ویگن کی 10 ملین بسیں فروخت ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اٹھارہ لاکھ ٹی ون ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. Reitz
میسرشمِٹ کیبن اسکوٹر (1953)
تین پہیوں والی یہ ایروڈائنامکس گاڑی میسر شمِٹ نامی ہوائی جہاز بنانے والا ہی تیار کر سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی پیداوار رک گئی تھی، مگر پھر کمپنی نے انجینیئر فرِٹس فینڈ کے ساتھ مل کر فلِٹسر کار متعارف کروائی۔ یہ پارٹنر شپ طویل المدتی نہیں تھی۔ میسرشِمٹ اس کے بعد دوبارہ جہاز سازی میں مصروف ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مرسیڈیز تین سو ایس ایل (1954)
یہ کار ’گُل وِنگ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، وجہ ہے اس کے پروں کی طرح کھلتے دروازے۔ اس ریسنگ گاڑی کی وجہ سے مرسیڈیز ایک مرتبہ پھر حیرت انگیز طور پر موٹر اسپورٹس کھیل میں واپس آئی۔ اس گاڑی نے ریسنگ کے متعدد اہم مقابلے جیتے اور پھر سڑکوں پر دکھائی دینے لگی۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو اِسیٹا (1955)
یہ گاڑی تیز رفتار تو نہیں تھی، مگر سن 1955 سے 1962 تک بی ایم ڈبلیو نے اس سے مالیاتی استحکام حاصل کیا۔ یہ موٹر سائیکل کے انجن والی گاڑی کم قیمت اور کارگر تھی۔ اسے ببل کار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فریج کی طرح سامنے سے کھلتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
گوگوموبائل (1955)
یہ چھوٹی گاڑی بھی گاڑیوں کو پسند کرنے والوں میں مقبول ہے۔ کمپنی کے مالک کے پوتے ’ہانس گلاز‘ کی عرفیت ’گوگو‘ کو اس گاڑی سے جوڑا گیا۔ دیگر چھوٹی گاڑیوں کے مقابلے میں گوگو میں چار افراد سوار ہو سکتے تھے۔ صرف ایک اعشاریہ چھ میٹر کی جگہ کی وجہ سے گو کہ ان افراد کو ذرا سکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس گاڑی کو چلانے کے لیے صرف موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس درکار ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
پورشے نائن ون ون (1963)
پورشے کی نائن ون ون گاڑی کار سازی کی تاریخ کی سب سے زیادہ لمبے عرصے سے بنائی جانے والی گاڑی ہے۔ اس کے پیچھے قریب نصف صدی کی تاریخ ہے۔ یہ پورشے گاڑیوں کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ گاڑی کی بناوٹ ایسی ہے کہ پورشے نائن ون ون فوراﹰ پہچانی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance//HIP
مرسیڈیز بینز 600 (1964)
اس گاڑی میں ٹیلی فون، ایرکنڈیشنر، فریزر ڈبہ اور دیگر لگژری سہولیات، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے سب سے لگژری گاڑی بناتے تھے۔ بہت سی مشہور شخصیات نے یہ گاڑی استعمال کی، جس میں پوپ سے جان لینن تک شامل تھے۔ جرمن حکومت کے لیے یہ کچھ مہنگی تھی، اس لیے وہ اہم مواقع پر اسے کرائے پر لیتے تھے۔