جون کے وسط میں یہ آخر کار ممکن ہوسکتا ہے۔ تب یورپ کی سرحدیں کورونا پابندیوں کے بعد دوبارہ کھلیں گی۔ تاہم ہر کوئی ہر جگہ نہیں جا سکے گا۔ کورونا کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اشتہار
یورپ میں کورونا بحران کے پھیلنے سے پہلے سرحدوں کے آر پار سفر کرنا معمول کی بات تھی اور ہر ملک کے باشندے اپنے من پسند سیاحتی مقامات تک پہنچنے کے لیے گرمیوں کی تعطیلات سے کہیں پہلے ہوائی جہاز، ٹرین یا بس کے ٹکٹ وغیرہ بک کرنے کے ساتھ ہی ہوٹل وغیرہ کا بندوبست کر لیا کرتے تھے۔ اس سال کورونا کے بحران نے اندرون ملک سے لے کر یورپ کے دیگر ممالک تک کے سفر کو ناممکن بنا دیا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں تھا کہ آیا سیاح اس سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اندرون یورپ کا سفر کر پائیں گے۔ اب آس و امید کی ایک کرن نظر آنا شروع ہوئی ہے۔ غالباً جون کے وسط سے یورپ کے اندر سفر کرنا ممکن ہو جائے گا مگر سرحدوں کو محدود طریقے سے کھولا جائے گا۔
جرمن حکومت کا فیصلہ
وفاقی جرمن حکومت نے 31 یورپی ممالک کے لیے سفری پابندی 15جون تک ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان میں یورپی یونین کے دیگر 26 رکن ممالک کے علاوہ، برطانیہ بھی شامل ہے ، جو یورپی یونین کو چھوڑ چکا ہے، نیز آئس لینڈ، ناروے، سوئٹزرلینڈ اور لشٹن اشٹائن بھی اس میں شامل ہیں۔
تاہم روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ پر درج تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں، شینگن زون میں شامل ممالک، برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ میں وفاقی اور ریاستی حکومتیں سیاحوں کے کسی بھی دوسرے ملک میں قیام کے بعد قرنطینہ کے مشورے پر غور کر رہی ہیں۔ اس کا اطلاق اُس صورت میں ہو گا جب مرض کی روک تھام اور کنٹرول کے یورپی مرکز کے اعدادوشمار کی جانچ پڑتال اور اشاعت کے مطابق، متعلقہ ملک میں سات دنوں کے دوران ایک لاکھ باشندوں میں سے مجموعی طور پر 50 افراد میں اس مرض کی نشاندہی ہو گی۔
اگر کورونا وائرس کی صورتحال قابو میں رہتی ہے تو قرنطینہ کی مذکورہ شرط ختم ہو سکتی ہے۔ اس کا فیصلہ دراصل وفاقی کابینہ میں اسی ہفتے بدھ کو ہونا تھا تاہم اسے جون کے اوائل تک کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔
تاریخی 'ڈی ڈے‘ پر سفر کی امید
یہ تو تھی بات جرمنی کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کی لیکن جب سے کووڈ انیس نے یورپ پر حملہ کیا تب سے، یورپی یونین میں سفر و سیاحت سے متعلق یکساں نقطہ نظر اختیار نہیں کیا گیا۔ ہر ملک نے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کیےاور سرحدیں یکطرفہ طور پر بند کردی گئیں۔ کئی ممالک نے ایسے قرنطینہ ضوابط بھی انفرادی طور پر نافذ کیے تھے، جو اصولی طور پر سفر کی اجازت تو دیتے تھے لیکن تعطیلات گزارنا اور گھومنا پھرنا عملی طور پر ناممکن تھا۔ اب بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ مختلف یورپی ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفر کی اجازت اور سیاحت کی بحالی کا فیصلہ کریں گی۔
اطالوی وزیر خارجہ لوئیگی دی مایو نے کچھ دن قبل اطالوی نشریاتی ادارے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا، ''ہم پرعزم ہیں کہ ہم سب 15 جون کو یورپی سرحدوں کے دوبارہ کھل جانے کا فیصلہ مشترکہ طور پر کر سکیں گے۔" سیاحت کے لیے گویا یہ تاریخ "یورپی ڈی ڈے" کی سی حیثیت کی حامل ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ 6 جون 1944ء کو دوسری عالمی جنگ کے دوران تمام اتحادی طاقتوں نے مل کر نازی جرمن افواج پر حملہ کیا تھا اور فرانس کے علاقے نارمنڈی کے 5 مختلف ساحلی علاقوں پر ایک ساتھ برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کی فورسز پہنچی تھیں۔
خالی شہر، ویران سیاحتی مقامات
کورونا وائرس کی وبا سے کئی ملکوں میں ہُو کا عالم طاری ہے۔ شہروں میں ویرانی چھائی ہے اور لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ سنسان سیاحتی مقامات کی بھی اپنی ایک کشش ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
مارین پلاٹز، میونخ
جرمن شہر میونخ کے ٹاؤن ہال کے سامنے مارین پلاٹز اجڑا ہوا اوپن ایئر تھیئٹر کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ اِکا دُکا افراد اس مقام پر کھڑے ہو کر ٹاؤن ہال کے واچ ٹاور کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ واچ ٹاور کے گھڑیال کی گھنٹیاں شائقین شوق سے سنا کرتے تھے۔ فی الحال مارین پلاٹز میں پولیس اہلکار ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
اسپینش اسٹیپس، روم
تاریخی شہر روم کو آفاقی شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مشہور سیاحتی مقام اسپینش اسٹیپس اور بارکاچا فاؤنٹین بھی آج کل سیاحوں کے بغیر ہیں۔ بارکاچا فوارہ سن 1598 کے سیلاب کی نشانی ہے۔ فوارے کا پانی چل رہا ہے لیکن سیڑھیوں پر سیاح موجود نہیں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
لا رمبلا، بارسلونا
ابھی کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے کہ ہسپانوی شہر بارسلونا کے مقام لا رمبلا کی تصویر میں بہت سے سیاح نظر آیا کرتے تھے لیکن اب یہ جگہ ویران ہے۔ صرف تھوڑے سے کبوتر مہمانوں کی راہ دیکھتے پھرتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے لیکن یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔ وائرس کی وبا سے اسپین میں پندرہزارسے زائد لوگ دم توڑ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
شانزے لیزے، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں شانزے لیزے معروف کاروباری شاہراہ ہے۔ یہ پیرس کی شہ رگ تصور کی جاتی ہے۔ اب اس سڑک پر صرف چند موٹر گاڑیاں ہیں اور آرچ دے ٹری اُمف یا فتح کی محراب ویران دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Tang Ji
ٹاور برج، لندن
لندن شہر سے گزرتے دریائے ٹیمز پر واقع مشہور پُل معمول کے مقابلے میں بہت پرسکون ہے۔ سیاح موجود نہیں اور دریا میں سے کشتیاں بھی غائب ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا سے پُل کے دونوں اطراف لوگ دکھائی نہیں دہتے۔ لوگ احتیاطً گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
حاجیہ صوفیہ، استنبول
ترک شہر استنبول کا اہم ترین سیاحتی مرکز حاجیہ صوفیہ اور اس کے سامنے کا کھلا دالان۔ یہ ہمیشہ سیاحوں اور راہ گیروں سے بھرا ہوتا تھا۔ وائرس کی ایسی وبا پھیلی ہے کہ نہ سیاح ہیں اور نہ ہی مقامی باشندے۔ لوگوں کی عدم موجودگی نے منظر بدل دیا ہے۔ ارد گرد کی سبھی عمارتیں اب صاف نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xu Suhui
تورسکایا اسٹریٹ، ماسکو
روسی دارالحکومت ماسکو کی کھلی شاہراہ تورسکایا فوجی پریڈ کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ وائرس کی وبا کے ایام میں اب سن 2020 کے موسم بہار کے شروع ہونے پر اس شاہراہ پر جراثیم کش اسپرے کرنے والے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/G. Sysoev
اہرامِ فراعین، الجیزہ قاہرہ
فراعینِ مصر کے مقبرے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کے بغیر ہیں۔ ان کو اب صرف جراثیم کش اسپرے والے باقاعدگی سے دیکھنے جاتے ہیں۔ اہرام مصر یقینی طور پر تاریخ کے ایک مختلف بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ مصر کو بھی کووڈ انیس کی مہلک وبا کا سامنا ہے۔ اس ملک میں وائرس کی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Hamdy
خانہ کعبہ، مکہ
سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کا سب سے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ بھی زائرین کے بغیر ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد اس مقام کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہ مقدس مقام بھی دو اپریل سے کرفیو میں ہے۔ اس میں ہر وقت ہزاروں عبادت گزار موجود ہوا کرتے تھے۔ وائرس سے بچاؤ کے محفوظ لباس پہنے افراد اس مقام اور جامع مسجد میں جراثیم کش اسپرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Nabil
تاج محل، آگرہ
تاریخی اور ثقافتی مقامات میں تاج محل کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ محبت کی یہ یادگار اب دیکھنے والوں کی منتظر ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کے پھیلنے کے بعد بھارت کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ تاج محل کو فوجیوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے تا کہ شائقین اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اس مقام کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ گھر میں رہنے میں بہتری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
ٹائم اسکوائر، نیو یارک سٹی
نیو یارک سٹی کا مرکزی مقام کہلانے والا ٹائم اسکوائر کورونا وائرس کی وبا سے پوری طرح اُجاڑ دکھائی دیتا ہے۔ دوکانیں بند اور شاپنگ مالز خریداروں کو ترس رہے ہیں۔ سڑکیں ویران اور فٹ پاتھ راہگیروں کے بغیر ہیں۔ ہر وقت جاگنے والا شہر اس وقت سویا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/T. Stolyarova
بوربن اسٹریٹ، نیو اورلیئنز
سیاحوں سے رات گئے تک بھری رہنے والی بوربن اسٹریٹ کو بھی وائرس کی نظر لگ چکی ہے۔ امریکا ریاست لُوئزیانا کا ’بِگ ایزی‘ کہلانے والے اس شہر کی نائٹ لائف بہت مقبول تھی لیکن اب کورونا وائرس کی وبا نے رات بھر جاری رہنے والی سرگرمیوں کو پوری طرح منجمد کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Herbert
برازیل: کوپا کابانا، ریو ڈی جنیرو
برازیلی بندرگاہی اور سیاحتی شہر ریو ڈی جنیرو میں بھی کووڈ انیس کی بیماری نے ہُو کا عالم طاری کر رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کے شہر پر کسی بھوت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا ساحلی علاقہ کوپا کابانا کبھی قہقہوں اور کھیلتی زندگی سے عبارت تھا اب وہاں صرف بحر اوقیانوس کی موجیں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/F. Teixeira
اوپرا ہاؤس، سڈنی
آسٹریلوی شہر سڈنی کا اوپرا ہاؤس دنیا میں اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے مقبول ہے۔ اس اوپرا ہاؤس کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں مقیم رہیں۔ اوپرا ہاؤس کے دروازے تاحکم ثانی بند کر دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aap/B. De Marchi
عظیم دیوارِ چین
کورونا وائرس کی بیماری نے چین میں جنم لیا تھا۔ وبا کے شدید ترین دور میں سارے چین میں لاک ڈاؤن تھا۔ رواں برس مارچ کے اختتام پر عجوبہٴ روزگار تاریخی دیوارِ چین کو ملکی سیاحوں کے لیے کھولا گیا۔ یہ تصویر دیوار کو کھولنے کے بعد کی ہے جو ساری دنیا کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اچھے دن قریب ہیں۔