کورونا بحران: طیب ایردوآن ہسپتال مظفر گڑھ کا کردار
2 مئی 2020کورونا بحران سے متاثرہ دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان ميں بھی یہ مسئلہ کافی حد تک سیاسی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابين کورونا کے پھيلاؤ کو روکنے اور کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج کے لیے ناکافی اقدامات اور ناقص پاليسیوں کے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کے وہ ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھانے، صحت کا نظام بہتر کرنے اور ریلیف آپریشن وغيرہ کے ليے صوبوں کی مالی امداد تو دور کی بات کسی قسم کی معاونت نہيں کر رہی۔ ناقص صحت کے انتظام کی وجہ سے کورونا متاثرين کے ساتھ ساتھ ملک کے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی خدمات کی صلاحیتيں دم توڑتی جا رہی ہيں۔
ایسی صورتحال ميں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوبی ضلع مظفر گڑھ ميں قائم رجب طیب ايردوآن ہسپتال غير معمولی کردار ادا کر رہا ہے۔
ملتان شہر سے محض 35 کلوميٹر پر واقع مظفر گڑھ میں ايردوآن ہسپتال نہ صرف کورونا وائرس کے متاثرين اور کووڈ 19 ميں مبتلا مریضوں کا علاج ہو رہا ہے بلکہ گزشتہ ماہ جب ملتان کے نشتر ہسپتال کے ایسے ڈاکٹرز جو خود اس وائرس کا شکار ہوئے تو انہيں بھی علاج کے ليے مظفر گڑھ کے اسی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ایردوآن ہسپتال مظفر گڑھ کی مختصر تاريخ
رجب طییب ایردوآن ہسپتال دراصل 2010 ء ميں پاکستان میں آنے والے انتہائی تباہ کن سيلاب کے بعد ترک صدر اور عوام کی طرف سے مظفرگڑھ کی عوام کی مدد کے ليے خیر سگالی کے طور پر تعمیر کرایا گیا گیا تھا کیوں کہ ضلع مظفرگڑھ سيلاب کی زد ميں آنے والا مغربی پنجاب کا سب سے زیادہ متاثرہ اور پسماندہ ضلع تھا۔
ترک صدر نے اس ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا اور اس ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح 2012ء میں ہوا۔ تب اس ہسپتال کی ميں 40 بستر تھے ایک سال کے قلیل عرصے میں بستروں کی تعداد 150 ہوچکی تھی۔ 2018 ء ميں اس ہسپتال کی توسيع کے ليے ایک نیا بلاک تعمیر کیا گیا جس ميں مزيد 250 بستر کا اضافہ ہوا۔ نئی عمارت کے ساتھ اس پسماندہ علاقے میں ايک میڈیکل کالج اور نرسنگ کالج کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اس وقت ایردوآن ہسپتال مظفر گڑھ ميں جديد سہولیات کے ساتھ 400 بستر موجود ہيں۔ اس ہسپتال کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ادویات، ٹیسٹ اور کھانا مریضوں اور ان کے لواحقین کو مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ ان سہوليات کی فراہمی ميں کراچی کی ایک سماجی تنظیم انڈس فاؤنڈیشن کا بڑا ہاتھ ہے۔ انڈس فاؤنڈیشن ایردوآن ہسپتال مظفر گڑھ کے پراجيکٹ میں بھرپور تعاون کر رہی ہے۔
کورونا کی وبا کی مظفر گڑھ ميں صورتحال
اپريل ميں جب ملتان کے سب سے بڑے ہسپتال میں ایک دن میں بارہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے چھ ارکان میں کورونا وائرس کی تشخیص کی خبر عام ہوئی اس وقت نہ صرف ڈاکٹروں کی ملکی تنظیموں اور صوبہ پنجاب سمیت ملک بھر ميں تشویش پھيل گئی تھی۔ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر محمد خضر حیات نے ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے جامع اقدامات کی اشد ضرورت پر زرو دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ڈاکٹروں کو طیب ایردوآن ہسپتال مظفر گڑھ منتقل کر دیا گيا ہے۔
خود مظفر گڑھ ميں کورونا کی صورتحال کیا ہے اور ایردوآن ہسپتال کیا کردار ادا کر رہا ہے یہ جاننے کے ليے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا مظفر گڑھ کے ايک سینيئر ڈیزاسٹر مینجمنٹ رسک ریڈکشن آفیسر، ماہر ماحولیات اور ايڈوکیٹ یاسر اشفاق ہاشمی سے: ''مظفرگڑھ جس میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 123 کے قريب ہے مگر ان میں مقامی افراد کی تعداد صرف 10 ہے۔ اس کی بڑی وجہ ضلعی انتظامیہ کا قابل تعریف کردار ہے۔ یہاں کلورین اسپرے کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن پر بہتر انداز میں عمل درآمد کروایا گیا۔ مگر اس ضمن میں سب سے اہم کردار ضلعی سرحدوں کی بندش کا بھی ہے جس سے کورونا کے کیسز کی تعداد کم ہے۔‘‘
کورونا وائرس کے بارے ميں مقامی لوگوں ميں کتنا شعور و پایا جاتا ہے؟ اس بارے ميں ہاشمی کا کہنا تھا، ''اس وائرس کے حوالے سے مقامی افراد میں کافی شعور پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ میڈیا، مقامی ادارے اور سماجی تنظیموں کا کردار ہے۔ سندھ میں کورونا کے کیسز کی وجہ سے یہاں کے لوگوں نے محتاط رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے مظفرگڑھ اس وقت بھی اپنے ہمسایہ شہر ملتان جہاں پاکستان کا سب سے بڑا قرنطینہ سینٹرکام کر رہا ہے، سے کہيں زیادہ محفوظ ہے۔ یہاں کا اسٹیٹ آف آرٹ ہسپتال رجب طیب ایردوآن ہسپتال بھی مظفر گڑھ کی حوصلہ افزا صورتحال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جہاں ملتان کے ایم پی اے اور ڈیرہ غازی خان کے ڈاکٹرز زیر علاج ہیں۔‘‘
ايڈووکیٹ یاسر اشفاق ہاشمی کے مطابق ایردوآن ہسپتال ٹرسٹ اس وقت مظفرگڑھ کے علاوہ ملتان اور بہاولپورميں ايک ايک اور لاہور کے مضافات ميں دو بلڈ ٹرانسپلانٹ سينٹرز کی مدد کر رہا ہے۔