1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا بحران نے افغان بچوں کا مستقل مزید تاریک کر دیا

29 مئی 2020

سیو دی چلڈرن اور یونیسیف کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں، بچوں اور نوجوانوں کی زندگیاں پہلے ہی بہت زیادہ خطرات اور مشکلات سے دوچار تھیں اب کورونا کی وبا کے سبب ان کا مستقبل مزید تاریک نظر آ رہا ہے۔

Bildergalerie Kinderarmut Afghanistan
تصویر: Getty Images/Aref Karimi/AFP

سیو دی چلڈرن اور  یونیسیف کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں، بچوں اور نوجوانوں کی زندگیاں پہلے ہی بہت زیادہ خطرات اور مشکلات سے دوچار تھیں اب کورونا کی وبا کے سبب ان کا مستقبل مزید تاریک نظر آ رہا ہے۔

سیو دی چلڈرن اور  یونیسیف کی ایک مشترکہ مطالعاتی رپورٹ کے مطابق 2020 ء کے آخر تک کووڈ 19 کے وبائی مرض کے سبب دنیا بھر میں مزید 86 ملین بچے غربت  کا شکار ہو سکتے ہیں۔

سیو دی چلڈرن اور  یونیسیف ان دونوں امدادی ایجنسیوں نے ایک بیان میں کہا کہ اس پیش رفت سے پوری دنیا میں غربت سے متاثرہ بچوں کی کل تعداد 672 ملین ہو جانے کے قوی امکانات ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہے۔ ان بچوں کا تقریباﹰ دوتہائی حصہ سب صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں رہتا ہے۔

ننگرہار میں قائم آئی ڈی پیز کا کیمپ۔تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

پوشیدہ متاثرین

 COVID-19 نے داخلی طور پر بے گھر ہونے والے دنیا کے لاکھوں بچوں کو اسکولوں، صحت کی سہولیات، گھروں اور برادریوں تک سے محروم کر دیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں، بچوں اور نوجوانوں کی زندگیاں، پہلے ہی بہت زیادہ خطرات اور مشکلات سے دوچار تھیں اور اب کورونا وائرس نے ان کے مستقبل کو مزید تاریک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

پُر ہجوم رہائش گاہیں، جہاں کے مکینوں کی صاف پانی اور حفظان صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے یا ایسے معاشرے جہاں عشروں سے لا تعداد خاندان اندرونی طور پر بے گھر ہیں، میں کورونا وائرس پھیلنے کے خطرات کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ بہت سے بے گھر افغان خاندانوں کے لیے یہ روز مرہ زندگی کے حقائق ہیں۔ ان خاندانوں کی اکثر ذرائع ابلاغ تک رسائی نہیں ہوتی اور اس کا مطلب ہے کہ یہ صحت عامہ کے بارے میں اہم ترین معلومات اور پیغامات سے بھی محروم رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف اور اس کے شراکت دار ادارے کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد سے افغانستان کی سر زمین پر داخلی طور پر بے گھر ہونے والے خاندانوں کو انتہائی خطرناک صورتحال سے نکالنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس وقت ان کا اولین مقصد ایسے خاندانوں کے بچوں کو کووڈ انیس جیسے مرض سے بچانا اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔

کیمپس بند ہونے کے بعد یہ بچے کہاں جائیں گے؟تصویر: picture-alliance/dpa/M. Jawad

 کیمپ ویران

شمالی افغانستان کے صوبہ بلخ میں داخلی طور پر بے گھر افراد یا )آئی ڈی پیز( کے لیے ''حضرت بلال کیمپ‘‘ قائم کیا گیا تھا جو انتہائی دوستانہ اور خوشگوار ماحول کی وجہ سے بچوں کے لیے کشش کا باعث تھا۔ صرف دو ماہ قبل تک یہاں بچوں کی رونق دیکھنے کو اور شور شرابہ سننے کو ملتے تھے۔ انہیں اس کیمپ میں کھیل کود کے علاوہ سیکھنے کے مواقع بھی میسر تھے اور یہاں یہ محفوظ طریقے سے دن گزارا کرتے تھے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کو کم کرنے کے لیے یہ کیمپ بند کر دیا گیا۔ اب ان بچوں کی وہ خوشگوار آوازیں خوفناک خاموشی میں بدل چُکی ہیں۔


لاک ڈاؤن کے سبب لاکھوں بچے اس وقت تعلیم وتربیت سے محروم ہیں۔ یونیسیف اور سیو دی چلڈرن جیسے اداروں کے ایما پر سہولت کاروں کو یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ در بدر ہونے والے خاندانوں کو گھر گھر جا کر کووڈ 19اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق معلومات فراہم کریں۔

افغان بچیاں مشقت بھی کریں اور ذیادتیوں کا نشانہ بھی بنیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/H. Hashimi

نوجوان خواتین اور بچیاں دوہری مشکلات کا شکار

افغانستان میں نوجوان خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی سے جنسی استحصال کا شکار ہے۔ انہیں کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے ضروری خدمات، معلومات، امداد اور تحفظ تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے اور ان مشکلات کو کووڈ 19نے مزید بڑھا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، اسکولوں کی بندش نوجوان لڑکیوں کے لیے گھریلو تشدد سے لے کر معاشرے میں زیادتی کے زیادہ خطرات کا سبب بنی ہے۔ ماہرین کے بقول نوجوان لڑکیوں کے لیے، جن میں زیادہ تر داخلی طور پر بے گھر ہیں، اسکول بھی ایک محفوظ جگہ ہو سکتی ہے، جہاں اساتذہ اور دوسرے معمر افراد ان لڑکیوں کےساتھ بدسلوکی کرنے والوں اور انہیں جنسی اور دیگر زیادتیوں کا نشانہ بنانے والوں پر کڑی نگاہ رکھ سکتے ہیں۔

رقیہ، پانچ بچوں کی والدہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بچے کو رستم آباد آئی ڈی پی کیمپ میں رکھا ہوا ہے۔ بہت سے دیگر رہائشیوں کی طرح، وہ بھی ماسک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں، لہذا وہ COVID-19 سے بچاؤ کے لیے اپنے اسکارف سے اپنا چہرہ ڈھانپتی رہتی ہیں۔ وہ دیگر چار بچوں کے لیے پریشان ہیں کہ انہیں کس طرح محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات زندگی فراہم کریں۔

غربت کے شکار والدین چھوٹی چھوٹی بچیوں کی جبری شادی پر رضامند۔تصویر: APImages

چائلڈ میرج یا کم عمری کی شادی

کورونا کی وبا جہاں انگنت معاشرتی اور معاشی مسائل کا سبب بنی ہے وہیں افغانستان جیسے پسماندہ اور فرسودہ روایتی معاشرے میں پہلے سے موجود ''چائلڈ میرج‘ کے رجحان میں مزید اضافہ بھی ہوا ہے۔ اس طرح کی وبا کے دوران مشکلات میں گھرے افغان گھرانوں کے لیے چائلڈ میرج ایک اور انوکھا چیلنج  ہے۔ غربت اور بے سرو سامانی کی وجہ سے والدین اپنی بچیوں کی بہت کم عمری میں شادیاں کر دینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ غربت کم عمر بچوں کی شادی کا ایک جانا پہچانا سبب ہے۔ ماہرین کے مطابق معاشی دباؤ کے وقت بہت سے خاندان اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے ان کی عمر کی پرواہ کیے بغیر انہیں کسی کے بھی ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ کر اپنا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ کورونا بحران کی وجہ سے اس  رجحان میں مزید اضافے کے امکانات بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔

کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں