ایک سروے میں کووڈ انیس کے خلاف کام کرنے والے ملکی اداروں پر عوامی اعتماد کا جائزہ لیا گیا، جس کے نتائج کے مطابق ڈاکٹروں اور طبی عملے پر اس اعتماد میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن سیاست دانوں پر عوامی اعتماد میں کمی آ گئی ہے۔
اشتہار
دنیا کے نوے ملکوں میں کام کرنے والے مارکیٹ ریسرچ کے عالمی ادارے آئی پی ایس او ایس نے پندرہ سے سترہ اپریل کو کیے جانے والے ایک ملک گیر سروے میں پاکستان بھر کے اٹھارہ سال سے زائد عمر کے مرد و خواتین کی ایک منتخب تعداد سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کے خیال میں کورونا کی عالمی وبا کے دوران ان اداروں پر عوام کے اعتماد میں کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ہر دس میں سے آٹھ پاکستانیوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر میڈیکل اسٹاف پر ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان بھر میں صرف سات فی صد لوگ ایسے تھے، جن کا کہنا تھا کہ طبی عملے پر ان کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔
اناسی فی صد لوگوں کے خیال میں رینجرز، اٹھاون فی صد لوگوں کی رائے میں پولیس، انچاس فی صد عوام کے مطابق میڈیا اور چالیس فی صد لوگوں کے مطابق وفاقی حکومت اور سینتیس فی صد لوگوں نے صوبائی حکومتوں کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہاں کورونا وائرس کی وبا کے دوران ان پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
عوامی اعتماد میں کمی کی وجہ کیا ہے؟
دوسری طرف سوشل میڈیا (تینتیس فی صد) ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (اکتیس فی صد) اور سیاست دانوں (انتیس فی صد) کے بارے میں عوامی اعتماد میں اضافے کی بات کرنے والے لوگ ایک تہائی یا اس سے بھی کم تھے۔
پندرہ فی صد لوگوں کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا پر عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے۔ این ڈی ایم اے پر عوامی اعتماد کے کم ہونے کی بات کرنے والے لوگوں کی تعداد بائیس فی صد تھی، سیاست دانوں پر عوامی اعتماد کی کمی کے حق میں بتیس فی صد افراد نے رائے دی۔ عوام کی بقیہ تعداد کا یہ خیال تھا کہ ان اداروں کے حوالے سے عوام کے اعتماد میں کمی آئی ہے اور نہ ہی اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے سامنے آنے والی رائے بڑی حد تک قابل فہم ہے لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد کا یہ سمجھنا کہ این ڈی ایم اے پر عوامی اعتماد میں اضافہ نہیں ہوا ہے یا اس میں کمی آئی ہے قدرے حیران کن ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ این ڈی ایم اے کے اقدامات بڑی حد تک براہ راست عوامی رابطوں سے متعلق نہیں ہیں۔
’سیاست دان سیاست میں ہی پڑے رہے‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے معروف تجزیہ کار عارف نظامی کا کہنا تھا کہ وہ اس سروے کے نتائج سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاست دانوں کے حوالے سے عوامی رائے شاید اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ سیاست دانوں نے کورونا کی وبا کے دوران بھی سیاست نہیں چھوڑی۔
عارف نظامی کے بقول سندھ کے چیف منسٹر اور آزاد کشمیر کی حکومت کے علاوہ کورونا کے خلاف مہم میں مجموعی طور پر سیاست دانوں کی سنجیدگی نظر نہیں آئی، اس لیے عوامی اعتماد متزلزل ہوا۔
نظامی نے مزید کہا، ''وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے معاملے پر کنفیوزن کا شکار رہی، سندھ نے ٹائیگر فورس کو ماننے سے انکار کر دیا، عمران خان اپوزیشن کو آن بورڈ لینے میں ناکام ہو گئے، انہوں نے اپوزیشن کی میٹنگ میں اپنی تقریر سنا کر چلے جانے کو ترجیح دی، بلاول اور شہباز شریف نے اپوزیشن نہ کرنے کا کہا لیکن ان کے ترجمان بھی الزامات اور جوابی الزامات کا شکار ہو گئے۔ اس طرح بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آتی رہیں اور عوام کو یہ پیغام گیا کہ ملک کے سیاست دان دکھ کی اس گھڑی میں بھی عوامی مفاد کے لیے اکھٹے نہ ہو سکے۔ ‘‘
شہری خوفزدہ اور پریشان
اس سروے میں سامنے آنے والے دیگر نتائج کے مطابق پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک پاکستانی کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگلے چھ مہینوں میں اس کی ملازمت ختم ہو جائے گی۔ اور اس خوف کی شدت صوبہ خیبر پختونخواہ میں زیادہ ہے۔
نتائج کے مطابق پاکستان میں لوگ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے زیادہ تر چہرے پرماسک استعمال کرنے اور ھاتھ دھونے پر انحصار کر رہے ہیں لیکن ابھی بھی چھپن فی صد پاکستانی ایسے ہیں جو ہجوم والی جگہوں پر جانے سے نہیں کتراتے۔
فرانسیسی ادارے آئی پی ایس او ایس کے اس سروے کے مطابق دس میں سے آٹھ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں مساجد میں نماز تراویح کا اہتمام پہلے کی طرح ہونا چاہیے۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔