بھارت بھی ڈبلیو ایچ او کے رول کی جانچ کے مطالبہ میں شامل
جاوید اختر، نئی دہلی
18 مئی 2020
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے پھیلنے کی جانچ کے سلسلے میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی (ڈبلیو ایچ اے) میں 61 ممالک کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز کی بھارت نے بھی تائید کی ہے۔
اشتہار
دنیا کے 62 ممالک نے ایک مشترکہ تجویز پیش کرکے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کے فیصلہ ساز ادارے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی سے مطالبہ کیا ہے کہ کووڈ انیس کی روک تھام کے لیے ڈبلیو ایچ او کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی ”غیر جانبدارانہ، آزادانہ، اور جامع" انکوائری کرائی جائے۔
یہ تجویز سات صفحات پر مشتمل اس قرار داد کا حصہ ہے جو 35 ممالک اور27 رکنی یورپی یونین نے پیش کی ہے اور امید ہے کہ پیر 18مئی سے شروع ہونے والے ڈبلیو ایچ اے کے 73 ویں اجلاس میں اس پر غور کیا جائے گا۔
اس قرارداد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تین مستقل اراکین برطانیہ، روس اور فرانس کی تائید حاصل ہے۔ تاہم امریکا اور چین نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ جن دیگر ممالک نے اس پر دستخط کیے ہیں ان میں جاپان، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور ترکی شامل ہیں۔ لیکن سارک کے رکن ممالک میں سے پاکستان، افغانستان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ صرف بنگلہ دیش اور بھوٹان نے اس تجویز کی تائید کی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے کسی بین الاقوامی فورم پر اس طرح کا موقف اختیار کیا ہے جو یہ پتا لگانے کی کوشش کرے گا کہ اس مہلک وائرس کا آغاز کہاں سے ہوا اور اس ہلاکت خیز وبا سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کے لیے ڈبلیو ایچ او نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں۔ بھارت کا موقف رہا ہے کہ وہ فی الوقت کووڈ انیس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور اس بحران سے نمٹنے کے بعد ہی اس طرح کے سوالات پر غور کرے گا۔
خیال رہے کہ عام خیال یہ ہے کہ یہ وائرس چین کے ووہان شہر سے پھیلنا شروع ہوا۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اب تک تین لاکھ 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 4.7 ملین سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
چین پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے کورونا وائرس کے انفکشن کے ابتدائی دنوں کی معلومات کوچھپانے کی کوشش کی تھی۔ جب کہ ماضی میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریسس پر چین کی حمایت کرنے کے الزامات بھی عائد ہوچکے ہیں۔
چین نے تاہم حال ہی میں عندیہ دیا تھا کہ وہ 'مناسب وقت‘ پر اس معاملے کی جانچ کی حمایت کرے گا لیکن اس نے اس وائرس کے پھیلنے کے مقام کے متعلق امریکا اور چند دیگر ممالک کی طرف سے مبینہ طور پر 'سیاست‘ کیے جانے کی نکتہ چینی کی تھی۔
ڈبلیو ایچ اے میں پیش کردہ تجویز کے مسودے کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک بحران سے دوچار ہیں۔ اس لیے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس کی حتی الامکان جلد سے جلد ”غیر جانبدرانہ، آزادانہ اور جامع انکوائری‘‘ شروع کرائیں اور یہ پتہ لگائیں کہ ڈبلیو ایچ او نے اس عالمگیر وبا پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے۔ تجویز کے مسودے میں تاہم چین یا اس کے شہرووہا ن کا ذکر نہیں ہے۔
گزشتہ ماہ پہلی مرتبہ آسٹریلیا نے کووڈ انیس کے حوالے سے آزادنہ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ آخر یہ وبا پوری دنیا میں کیسے پھیلی۔ آسٹریلوی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ یہ بین الاقوامی برادری کے ایک ساتھ آنے کا وقت ہے تاکہ آئندہ ایسے وبا سے بروقت نمٹا جاسکے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
15 تصاویر1 | 15
لاک ڈاؤن کا نیا مرحلہ شروع
کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوشش کے تحت لاک ڈاؤن کا چوتھا مرحلہ پیر 18مئی سے شروع ہوگیاہے جو31مئی جاری رہے گا۔ حکومت نے گزشتہ 25مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا۔
حکومت نے لاک ڈاؤن میں توسیع کے ساتھ تاہم ریاستوں کو اپنی صوابدید کے مطابق درون ریاست بعض اقتصادی سرگرمیا ں شروع کرنے کا فیصلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ لیکن فضائی سروسز اورمیٹرو ریل سروسز پوری طرح بند رہیں گی۔ اسکول، کالج، ہوٹل، مالزاورشاپنگ سینٹر بھی بند رہیں گے۔ مذہبی مقامات، عبادت گاہیں اور سماجی، سیاسی پروگراموں پر پابندی بھی حسب سابق برقرار رہے گی۔
متاثرین کی تعداد 96ہزار سے متجاوز
حکومت کی طرف سے جاری تازہ اعدادو شمار کے مطابق پیر 18مئی کو بھارت میں کووڈ انیس سے متاثرین کی مصدقہ تعداد 96169 ہوچکی ہے۔ اس عالمگیر وبا سے اب تک 3039افراد ہلا ک ہوچکے ہیں۔ تاہم 37091 افراد صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔گزشتہ 24 گھنٹے میں 5242 نئے کیسز سامنے آئے اور 157افراد کی موت ہوگئی۔
متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد مہاراشٹر میں ہے۔ جہاں 33053 افراد بیمار ہوچکے ہیں جب کہ 1198افراد کی موت ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم مودی کی آبائی ریاست گجرات میں 11379 افراد متاثر ہوئے ہیں اور659 کی موت ہوچکی ہے۔ مدھیہ پردیش میں 4977 افراد متاثر اور248 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ قومی دارالحکومت دہلی میں بھی متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک 10054مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ 104کی موت ہوچکی ہے۔
جاوید اختر/ ک م (ایجنسیاں)
اسپین میں لاک ڈاؤن میں نرمی، عوام خوش مگر ڈاکٹر پریشان