اگلے بارہ مہینوں میں کم از کم بیس لاکھ بچوں کے موت کے منہ میں جانے کا امکان ہے۔ اضافی دو لاکھ بچے جنم لینے سے قبل ہی زندگی سے محروم ہو سکتے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے بہبودِ اطفال کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے ساری دنیا کے بچوں کی صحت، تعلیم اور غذائیت پر ناقابلِ تلافی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ادارے کے مطابق مختلف سروسز میں انتشار کی کیفیت اور بڑھتی غربت نے بچوں کی زندگیوں پر پریشانیوں اور خطرات کی چادر پھیلا دی ہے۔ یونیسیف کی سربراہ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فور کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے بچوں کی ایک پوری نسل شدید خطرے میں ہے۔
لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں
بچوں کے بارے میں ان خطرات کا اظہار یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ میں کیا گیا ہے اور اس میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر کے بچوں کو جن مسائل اور خطرات کا سامنا ہے، کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے ایک سو چالیس ملکوں میں ایک سروے بھی کیا گیا۔ ان میں ایک تہائی ملکوں نے بتایا کہ صحت کے شعبے میں انحطاط کی شرح دس فیصد ہے۔ ان میں ویکسین کی فراہمی میں تعطل اور ماؤں کی ذہنی صحت میں پیدا ہونے والی گراوٹ شامل ہے۔ یونیسیف کے مطابق ان مسائل سے اگلے بارہ مہینوں میں کم از کم بیس لاکھ بچوں کے موت کے منہ میں جانے کا امکان ہے اور اضافی دو لاکھ بچے جنم لینے سے قبل ہی زندگی سے محروم ہو سکتے۔
مختلف ممالک کے اسکول کورونا سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟
موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں۔ ایسے میں کورونا وائرس کے ایک اور مرتبہ پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ مختلف ممالک کے اسکولوں کے حفاظتی اقدامات پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
تھائی لینڈ: ایک باکس میں کلاس
بنکاک کے واٹ خلونگ توئی اسکول میں پڑھنے والے تقریباﹰ 250 طلبا کلاس کے دوران پلاسٹک ڈبوں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں پورا دن اپنے چہرے پر ماسک بھی پہننا پڑتا ہے۔ ہر کلاس روم کے باہر صابن اور پانی رکھا جاتا ہے۔ جب طلبا صبح اسکول پہنچتے ہیں تو ان کا جسمانی درجہ حرارت بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اسکول میں جولائی کے بعد سے انفیکشن کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
نیوزی لینڈ: کچھ طلبا کے لیے اسکول
دارالحکومت ویلنگٹن کے یہ طلبا خوش ہیں کہ وہ اب بھی اسکول جا سکتے ہیں۔ آکلینڈ میں رہنے والے طلبا اتنے خوش قسمت نہیں۔ یہ ملک تین ماہ تک وائرس سے پاک رہا لیکن 11 اگست کو ملک کے سب سے بڑے اس شہر میں چار نئے کیس سامنے آئے۔ طبی حکام نے شہر کے تمام اسکولوں اور غیر ضروری کاروبار کو بند رکھنے اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/H. Hopkins
سویڈن: کوئی خاص اقدامات نہیں
سویڈن میں طلبا اب بھی گرمیوں کی اپنی تعطیلات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ چھٹیوں سے پہلے کی تصویر ہے اور حکومتی پالیسی کو بھی عیاں کرتی ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس اسکینڈینیویا کے شہریوں نے کبھی بھی ماسک پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کاروبار، بار، ریستوران اور اسکول سب کچھ کھلا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/TT/J. Gow
جرمنی: دوری اور تنہائی
ڈورٹمنڈ کے پیٹری پرائمری اسکول میں یہ طلبا مثالی طرز عمل کی نمائش کر رہے ہیں۔ جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے تمام اسکولوں کی طرح اس اسکول کے بچوں کے لیے بھی ماسک پہننا لازمی ہیں۔ ان کا تعلیمی سال بارہ اگست سے شروع ہو چکا ہے۔ فی الحال ان اقدامات کے نتائج کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Fassbender
مغربی کنارہ: 5 ماہ بعد اسکول واپسی
یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہیبرون میں بھی اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔ اس خطے کے طلبا کے لیے بھی چہرے کے ماسک پہننا ضروری ہیں۔ کچھ اسکولوں میں دستانوں کی بھی پابندی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں اسکول مارچ کے بعد بند کر دیے گئے تھے جبکہ ہیبرون کورونا وائرس کا مرکز تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Bader
تیونس: مئی سے ماسک لازمی
تیونس میں ہائی اسکول کے طلبا کی اس کلاس نے مئی میں ماسک پہننا شروع کیے تھے۔ آئندہ ہفتوں میں اس شمالی افریقی ملک کے اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں اور تمام طلبا کے لیے ماسک ضروری ہیں۔ مارچ میں تیونس کے اسکول بند کر دیے گئے تھے اور بچوں کی آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
بھارت: لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پڑھائی
مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر میں واقع اس اسکول ان بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ یہاں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے انہیں پڑھایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Waydande
کانگو: درجہ حرارت کی جانچ کے بغیر کوئی کلاس نہیں
کانگو کے دارالحکومت کنشاسا کے متمول مضافاتی علاقے لنگوالا میں حکام طلبا میں کورونا وائرس کے انفیکشن کا خطرہ انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ریورنڈ کم اسکول میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو عمارت میں داخل ہونے سے پہلے درجہ حرارت چیک کروانا ہوتا ہے اور چہرے کے ماسک بھی لازمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Mpiana
امریکا: متاثرہ ترین ملک میں پڑھائی
کووڈ انیس کے ممکنہ کیسز کا پتہ لگانے کے لیے ہر امریکی اسکول میں روزانہ درجہ حرارت کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کی اس ملک کو فوری طور پر ضرورت بھی ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اب بھی امریکا میں ہو رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/P. C. James
برازیل: دستانے اور جپھی
ماورا سلوا (بائیں) شہر ریو ڈی جنیرو کی سب سے بڑی کچی آبادی میں واقع ایک سرکاری اسکول کی ٹیچر ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر اپنے طلبا سے ملنے کی کوشش کرتی اور انہیں ایک مرتبہ گلے لگاتی ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے پلاسٹک کے دستانے اور اپر ساتھ رکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Olivares
10 تصاویر1 | 10
غذائیت سے محرومی
یونیسیف کا کہنا ہے کہ ایک سو پینتیس ملکوں میں وبا کی وجہ سے مائیں اور بچوں کو چالیس فیصد مناسب غذائیت سے محرومی کا سامنا ہے۔ رواں برس اکتوبر میں دو سو پینسٹھ ملین بچوں کو اسکولوں میں کھانا فراہم نہیں کیا جا سکا۔ رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے دو سو پچاس ملین بچے وٹامن اے کی کمی سے دوچار ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ میں اس حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے چھ سے سات ملین مزید بچوں کو ناقص خوراک کھانے سے کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کے علاوہ تینتیس فیصد بچے لاک ڈاؤن کے دوران اسکولوں کی بندش سے تعلیمی مشکلات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں تعلیم، صحت، رہائش، غذائیت اور نکاسی آب جیسے شعبوں میں پندرہ فیصد کمی کا امکان ہے۔
عملی اقدامات کی اشد ضرورت
یونیسیف نے دنیا بھر کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے بچوں کی مشکلات میں کمی کے لیے بھرپور عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ ادارے نے حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ تعلیم کے شعبے میں پیدا ڈیجیٹل تقسیم کو بھی بند کرے۔ بچوں کو ناقص خوراک مہیا کرنے کے بجائے مکمل غذائیت کی حامل خوراک فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے ساتھ ساتھ صنفی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کی بھی روک تھام کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کی نمائندہ حکومتوں سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ تنازعات کے علاقوں میں بھی بچوں میں پائی جانے والی غربت میں کمی لانے کے لیے اقدامات کریں۔
جب کووڈ انيس نے دس سالہ لورينزو سے اس کے دادا کو چھين ليا