کورونا: جرمنی میں ایسٹر پر اجتماعات پر پابندی برقرار
8 اپریل 2020
جرمنی کی دو عدالتوں نے اس عرضی کو خارج کر دیا ہے جس میں کورونا وائرس کی روک تھام کے مدنظر مذہبی اجتماعات پر عائد پابندیوں کو چیلنج کرتے ہوئے ایسٹر کے موقع پر چرچ میں اجتماعات کی اجازت مانگی گئی تھی۔
اشتہار
کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر جرمن حکومت نے کسی بھی طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم مسیحیوں کے کیتھولک مکتب فکر کا ایک گروپ ایسٹر کے موقع پر چرچ میں اجتماعات کے لیے مصر تھا۔ اور اس سلسلے میں اس نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ لیکن برلن اور ہیس کی عدالتوں نے ان کی درخواستیں خارج کر دیں۔
عدالت کے اس فیصلے کے بعد کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ، دونوں مکتب فکر کے مذہبی پیشواؤں نے پھر اپیل کیا ہے کہ وبا کے پیش نظر وسط مارچ سے جو حکومتی پابندیاں عائد ہیں، وہ ایسٹر کے موقع پر بھی جاری رہیں گی۔ مسیحی مذہبی رہنما اجتماعات سے گریز کرنے اور ذمے دار شہری کے طور پرگھروں میں رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
کورونا: جرمنی کا دست تعاون
بھارت میں اکیس دنوں کے لاک ڈاون سے وہاں پھنس جانے والےجرمن شہریوں کو وطن لانے کا نظم کیا گیا۔ یہ تمام جرمن شہری دہلی سے اپنے وطن روانہ ہو گئے ہیں۔بھارت میں جرمن سفیر والٹر جوہانس لنڈنر نے اس پورے مہم کی نگرانی کی۔
تصویر: German Embassy in India
کورونا: جرمن کا دست تعاون
بھارت میں اکیس دنوں کے لاک ڈاؤن کے اعلان کی وجہ سے وہاں پھنس جانے والے پانچ سو سے زائد جرمن شہریوں کو وطن لانے کا انتظام کیا گیا۔ یہ تمام جرمن شہری دہلی سے اپنے وطن روانہ ہو گئے ہیں۔ بھارت میں جرمن سفیر والٹر جے لنڈنر نے اس پورے مہم کی نگرانی کی۔
تصویر: German Embassy in India
جنگی پیمانے پر سرگرمیاں
لاک ڈاؤن میں پھنس جانے والے جرمن شہریوں کے انخلاء کے لیے پورے بھارت سے انہيں دہلی میں جمع کرنا آسان کام نہیں تھا۔ لیکن دہلی میں جرمن سفارت خانے کے اہلکاروں نے انتھک محنت کرکے اسے ممکن بنایا۔
تصویر: German Embassy in India
صرف جرمن ہی نہیں
دہلی میں جرمن سفارت خانہ نے بتایا کہ جن لوگوں کو بھارت سے انخلاء کیا گیا ان میں صرف جرمن ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کے دیگررکن ممالک کے شہریوں کے علاوہ جرمنی میں ملازمت کرنے والے بھارتی شہری بھی شامل تھے۔
تصویر: German Embassy in India
طلبہ کی تعداد زیادہ
جرمن سفارت خانہ کا کہنا ہے ان میں بیشتر تعداد طلبہ کی ہے۔ جب کہ سیاحتی مقام رشی کیش میں پھنس جانے والے 130جرمن سیاحوں کو بھی خصوصی بس سے دہلی لایا گیا۔
تصویر: German Embassy in India
جائیں تو جائیں کہاں
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 مارچ کی رات کو اکیس دنوں کے لیے لاک ڈاون کے اعلان کے ساتھ ہی ریل، بس اور فضائی خدمات بند ہوگئیں۔جس کی وجہ سے بہت سے غیر ملکی سیاح اب بھی بھارت کے مختلف حصوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
زبردست چیکنگ
پولیس لاک ڈاون کا نفاذ سختی سے کرارہی ہے۔جرمن سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون میں شہریوں کو نکال کر لانے میں اسے کافی پریشانی ہوئی لیکن حکام نے بھی بہر حال ہر ممکن تعاون کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
حکومت فکر مند ہے
بھارت نے کہا ہے کہ وہ تمام غیر ملکیوں کے صحت و سلامتی کے تئیں کافی فکر مند ہے۔ مودی حکومت نے سرکاری حکام کے علاوہ تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ غیرملکیوں کو کسی طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا نہ پڑے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PTI/Twitter
7 تصاویر1 | 7
پروٹیسٹنٹ مکتب فکر کے مذہبی پیشوا ہیئنرک بیڈفورڈ اسٹروم کا کہنا تھا، ''انفیکشن کی رفتار کم کر کے زندگیوں کو بچانا، ''رہنما اصول ہے۔'' قدامت پرست کیتھولک مکتب فکر سے وابستہ بشپ روڈولف وڈے ہولزانے پابندیوں کی مخالفت کرنے والوں سے سوال پوچھا کہ کیا وہ '' سچ میں وائرس کے پھیلاؤ کو تقویت بخشنا چاہتے ہیں؟ چرچ کی سروسز کو ٹی وی پر نشر کیا جائے، براہ راست نشر کیا جائے یا پھر فون پر سنوایا جائے، ایسٹر کے پیغام کو تو نہیں روکا جاسکتا۔''
اس سے قبل منگل سات اپریل کو برلن کی انتظامی عدالت نے اس سلسلے میں کیتھولک مکتب فکر سے وابستہ ایک شخص کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں ایسٹر کے موقع پر پچاس افراد پر مبنی اجتماع کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے سلسلے میں برلن میں جو بندشیں عائد کی گئی ہیں اس سے مذہبی آزادی کی مخالفت نہیں ہوتی ہے۔ ہیس اور سیکسونی میں بھی انتظامی عدالتوں نے وبا کی صورت میں عائد پابندیوں کو جائز ٹھہراتے ہوئے اس نوعیت کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
کورونا سے جرمنی کو درپیش مشکلات
جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے مریض تقریباً پندرہ سو ہیں۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہو چکا ہے۔ خالی دکانیں، تمائشیوں کے بغیر فٹ بال میچز اور ثقافتی تقریبات پر پابندیاں۔ جرمنی میں روزمرہ کی زندگی کیسے گزاری جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
عطیات میں کمی
خوف و گھبراہٹ کے شکار صارفین کی وجہ سے سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں۔ جرمن شہریوں نے تیار شدہ کھانے اور ٹوئلٹ پیپرز بڑی تعداد میں خرید لیے ہیں۔ ٹافل نامی ایک امدادی تنظیم کے یوخن بروہل نے بتایا کہ اشیاء کی قلت کی وجہ سے کھانے پینے کی عطیات بھی کم ہو گئے ہیں۔ ’ٹافل‘ پندرہ لاکھ شہریوں کو مالی اور اشیاء کی صورت میں امداد فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Matzka
خالی اسٹیڈیم میں میچز
وفاقی وزیر صحت ژینس شپاہن نے ایسی تمام تقریبات کو منسوخ کرنے کا کہا ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہو۔ جرمن فٹ بال لیگ نے اعلان کیا کہ فٹ بال کلبس اور ٹیمز خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں تمائشیوں کی موجودگی میں میچ کھیلنا ہے یا نہیں۔ بدھ کے روز ایف سی کولون اور بوروسیا مؤنشن گلاڈ باخ کا میچ خالی اسٹیڈیم میں ہوا۔ اسی طرح کئی دیگر کلبس نے بھی خالی اسٹیڈیمز میں میچ کھیلے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
ثقافتی تقریبات بھی متاثر
جرمنی میں ثقافتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد تجارتی میلے اور کنسرٹس یا تو منسوخ کر دیے گئے ہیں یا انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ لائپزگ کتب میلہ اور فرینکفرٹ کا میوزک فیسٹیول متاثر ہونے والی تقریبات میں شامل ہیں۔ اسی طرح متعدد کلبس اور عجائب گھروں نے بھی اپنے دروزاے بند کر دیے ہیں۔ ساتھ ہی جرمن ٹیلی وژن اور فلم ایوارڈ کا میلہ ’’ گولڈن کیمرہ‘‘ اب مارچ کے بجائے نومبر میں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
اسکول ابھی کھلے ہیں
اٹلی میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ جرمنی میں زیادہ تر اسکول و کالج کھلے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں اساتذہ کی تنظیم کے مطابق ملک بھر میں فی الحال کورونا سے متاثرہ اسکولوں اور کنڈر گارٹنز کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/F. Hoermann
غیر ملکیوں سے نفرت
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی وجہ سے غیر ملکیوں سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چینی ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی ممالک جیسے امریکا اور اٹلی کے مقابلے میں ایشیائی ریستورانوں اور دکانوں میں گاہکوں کی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایشیائی خدوخال رکھنے والے افراد کو نفرت انگیزی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لائپزگ میں جاپانی مداحوں کے ایک گروپ کو جرمن فٹ بال لیگ بنڈس لیگا کا ایک میچ دیکھنے نہیں دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ہوائی اڈے مسافروں نہیں جہازوں سے بھر ے
جرمن قومی ایئر لائن لفتھانزا نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی پروازوں کی گنجائش میں پچاس فیصد تک کی کمی کر دی ہے۔ لفتھانزا کے ڈیڑھ سو جہاز فی الحال گراؤنڈ ہیں جبکہ مارچ کے آخر تک سات ہزار ایک سو پروازیں منسوخ کر دی جائیں گی۔ اس کمپنی نے کہا ہے کہ موسم گرما کا شیڈیول بھی متاثر ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے فلائٹس کم کی گئی ہیں۔ لوگ غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
لڑکھڑاتی کار ساز صنعت
چین میں کار ساز ی کے پلانٹس جنوری سے بند ہیں اور فوکس ویگن اور ڈائلمر جیسے جرمن ادارے اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی ایسی کئی جرمن کمپنیاں بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں، جو چین سے اضافی پرزے اور خام مال درآمد کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Meyer
سرحدی نگرانی
اٹلی اور فرانس کے بعد جرمنی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس دوران جرمنی سے آنے والی گاڑیوں کو اچانک روک کر مسافروں کا درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے۔ پولینڈ نے ٹرین سے سفر کرنے والوں کے لیے بھی اس طرح کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
8 تصاویر1 | 8
آئینی امور کے ماہر ہاسٹ ڈرائر نے ڈسلڈروف نے ایک مقامی اخبار سے بات چیت میں کہا تھا کہ چرچ میں اجتماعی عبادات پر پابندی لگانا کافی مشکل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ایسی صورت میں چرچ میں سروس کے دوران لوگوں میں واضح فاصلہ رکھنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے افراد کو اس موقع پر روحانی مدد کی ضرورت ہے اور آن لائن سروسز اس کا متبادل نہیں ہوسکتیں۔
ٹیلی ویزن کے سابق میزبان پروٹیسٹنٹ مسیحی پیٹر ہین نے پروٹسٹنٹ رہنما وں پر سیکولر حکام کی تابعداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ''شراب کی دکانیں کھلی ہیں لیکن چرچ بند ہیں۔ آپ اس کی وضاحت کس کس کو پیش کریں گے۔''
لیکن ہیس میں نساؤ کے ایک مقامی پروٹیٹسنٹ رہنما والکر یانگ نے پیٹر ہین کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ بتاتے ہوئے کہا کہ چرچ میں لوگ دکان کے بہ نسبت زیادہ دیر تک ٹھہرتے ہیں۔
جرمنی کی خوبصورت ترین کرسمس مارکیٹیں
جرمنی کے تمام شہروں میں کرسمس سے قبل رنگ برنگے اسٹالز پر مشتمل متعدد کرسمس بازار سجتے ہیں۔ جرمنی کی دس خوبصورت ترین کرسمس مارکیٹوں کا تصویری سفر کیجیے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/T. Becker
ڈریسڈن کا قدیم کرسمس بازار
پریوں کی کہانیاں، بیکری، دستکاری اور سرد موسم میں نوش کی جانے والی مصالحوں سے تیار کردہ ’گلو وائن‘ کے ساتھ یہاں میلے کا سما بندھ جاتا ہے۔ جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن میں سجنے والی ’اشٹریسل مارکیٹ‘ نامی کرسمس مارکیٹ روایتی اور لذیذ پکوانوں کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ سن 1434 سے سجنے والی یہ کرسمس مارکیٹ جرمنی کی قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
نورمبرگ کی کرسمس مارکیٹ
جرمنی کے جنوب مشرقی شہر نورمبرگ کی ’کرسٹ کنڈل مارکٹ‘ اپنی ایک خاص روایت کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں ہر دو سال بعد اس مارکیٹ کا افتتاح ایک ایسا ایک کم عمر بچہ کرتا ہے، جسے ’کرسٹ کنڈ‘ یا ’کم عمر یسوح‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم اس سال ایک بھارتی نژاد جرمن شہری کی بیٹی بینگنا منسی کا انتخاب کیا گیا۔ اس وجہ سے دائیں بازو کے انتہا پسند حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/D. Karmann
کولون میں روشنیوں سے جگمگاتی کرسمس مارکیٹ
ہر سال قریب چار ملین افراد کولون کے کرسمس بازار کا رخ کرتے ہیں۔ جرمنی کے معروف ترین لینڈ مارکس یا عمارات میں سے ایک کولون کیتھڈرل کے سامنے سجنے والے اس بازار میں پچیس میٹر طویل کرسمس درخت بھی لگایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Lubenow
ہیمبرگ میں خزانے سے بھری کرسمس مارکیٹ
ہیمبرگ کے تاریخی کرسمس بازار میں بہت سارے خزانے بھی موجود ہوتے ہیں، خاص طور پر کرسمس درخت کو ’گولڈن ایپل ‘ یعنی سنہری سیبوں کے ساتھ سجایا جاتا ہے۔ ہیمبرگ کے سٹی حال کے سامنے سجا ہوا یہ بازار دسمبر کی بارہ تاریخ تک کھلتا ہے۔
تصویر: picture alliance / Daniel Kalker
روٹھنبرگ آب دیر ٹاؤبر: قرون وسطیٰ کے دور میں واپسی
جرمن صوبے باویریا کے ایک چھوٹے سے قصبے ’روٹھنبرگ آب دیر ٹاؤبر‘ کی انوکھی کرسمس مارکیٹ کو ’رائٹرلیس مارکیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز جرمنی کی ایک افسانوی شخصیت، رائٹرل سے ہوا، جس کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ قرون وسطیٰ دور کی روایات کی یاد دلاتی اس مارکیٹ میں سارا سال کرسمس درخت کی سجاوٹ کا سامان نظر آتے ہیں۔
تصویر: Imago Images/P. Widmann
لُڈوگس برگ: گولڈن اینجلز سے سجی کرسمس مارکیٹ
’لڈوگس برگ باروک کرسمس مارکیٹ‘ میں 180 سے زائد اسٹالز کا خاص انداز میں بندوبست کیا جاتا ہے۔ کرسمس کے سیزن کے دوران شہر کی سڑکوں اور مشہور باروک لڈوگس برگ محل کے باغات قابل دید ہوتے ہیں۔ خاص طور پر روشنی کے سنہری فرشتے، جو اسٹالز کے اوپر رات میں جگمگاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/W. Dieterich
گینگن باخ: کھل جا سم سم!
جنوبی جرمن علاقے بلیک فاریسٹ میں واقع گینگن باخ کی ’ایڈونٹ کرسمس مارکیٹ‘ میں چوبیس دروازے سجائے جاتے ہیں۔ تیس نومبر سے چوبیس دسمبر تک کرسمس مارکیٹ کے وسط میں ٹاؤن ہال کی عمارت ایک ’ایڈونٹ کیلنڈر‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس عمارت کی ہر روز ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے، جس میں ایک عالمی شہرت یافتہ فن پارہ پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/D. Schoenen
روشٹاک: سمندر کنارے سجی کرسمس مارکیٹ
کرسمس سیزن کے دوران روشٹاک شہر کا مرکز شمالی جرمنی کی سب سے بڑی کرسمس مارکیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ تین کلومیٹر طویل اس کرسمس بازار میں 250 اسٹالز اور متعدد جھولے لگائے گئے۔ بحیرہ بالٹک کے ساحل کے قریب سجے کرسمس بازار میں آپ کو مختلف ممالک سے ہر طرح کی خصوصیات اور دستکاری ملیں گی۔
تصویر: Imago Images/Bildwerk
شوائن ہُٹ: جادوئی کرسمس مارکیٹ
باویریا کے جنگلات کے وسط میں واقع ’شوائن ہُٹ ‘ اور ’بیٹمان سیگے ‘ گاؤں میں ایک جادوئی کرسمس مارکیٹ سجائی جاتی ہے۔ اس بازار میں لوگ خیموں کے سامنے آگ لگا کر بیٹھ کے کہانیاں سناتے ہیں، اور ہر طرح کی دستکاری خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاضرین ’چڑیلوں والی شراب‘ پی سکتے ہیں۔
تصویر: Waldweihnacht Schweinhütt GbR
دراخن برگ میں کرسمس کہانیاں حقیقت بن گئیں
دراخن برگ کاسل میں سجی کرسمس مارکیٹ آپ کو 19ویں صدی کے دور میں واپس لے جاتی ہے۔ یہاں ’چارلس ڈِکنس‘ کی مشہور کرسمس کہانی کے کرداروں کو حقیقی شکل دی جاتی ہے۔ یہ کاسل کرسمس سے چار ہفتے قبل کھلتی ہے، جس میں پچاس سے زائد نمائش کنندگان مختلف مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔