کورونا: جرمنی میں کیسز میں نمایاں کمی، چین میں ٹیسٹنگ لازمی
21 جنوری 2021
جرمنی میں سخت پابندیوں کے بعد پچھلے دس روز میں کورونا کے نئے کیسز میں کمی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ ادھر چین نے نئے قمری سال سے پہلے ٹیسٹنگ لازمی قرار دے دی ہے۔
اشتہار
جرمنی میں وبا پر نظر رکھنے والے ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق پچھلے سات روز میں نئے کورونا کیسز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی ہے۔
بائیس دسمبر کو فی ایک لاکھ آبادی کی آبادی میں انفیکشن ریٹ 197.6 کی بلندی پر پہنچ گیا تھا، جو پچھلے ہفتے کے دوران کم ہو کر 119 پر آ گیا۔ تاہم حکومت کا ہدف انفیکشن کی اس شرح کو مزید کم کرکے 50 تک لانا ہے۔
جرمنی میں اس وقت ملک گیر لاک ڈاؤن ہے۔ اسکول، غیر ضروری دکانیں، کاروبار، ورزش اور اسپورٹس کی جگہیں بند ہیں۔
اس ہفتے حکومت نے وبا پر قابو پانے کے لیے ان پابندیوں کو کم از کم چودہ فروری تک بڑھانے اور کچھ مزید سختیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
چین
چین میں نئے قمری سال سے پہلے کروڑوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہیں۔ حکومت نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اس بار کورونا کیسز میں دوبارہ ممکنہ اضافے کے پیش نظر گھروں میں ہی رہیں۔ ساتھ ہی حکومت نے سالانہ چھٹیوں سے پہلے کورونا وائرس کی ٹیسٹگ بھی لازمی قرار دے دی ہے۔
بھارت
بھارت میں ٹیکے لگانے کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے، جس میں پچاس سال سے زائد عمر کے افراد سمیت وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور اراکین پارلیمان کو بھی ویکسین دی جائے گی۔
بھارت کی کئی ریاستوں میں لوگوں میں کورونا ویکسین سے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں جن کے باعث حکام کو ویکسین مہم میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
اشتہار
امریکا
توقع ہے کہ نئے صدر جو بائیڈن جمعرات کو کورونا سے نمٹنے کے لیے اپنی حکومت کی پالیسی واضح کریں گے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آخری سال میں امریکا دنیا بھر میں اس وبا سے سب سے بری طرح متاثر ملک بن کر ابھرا تھا، جہاں اب تک یہ وائرس چار لاکھ سے زائد انسانوں کی جان لے چکا ہے۔
نئے صدر کے مطابق کورونا سے نمٹنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
انڈونیشیا، سری لنکا، آسٹریلیا
ادھر انڈونیشیا میں وزارت صحت نے کہا ہے کہ عام شہریوں کو کووڈ انیس کی ویکسین دینے کا آغاز اپریل کے آخر اور مئی کے شروع سے ممکن ہو گا۔
انڈونیشیا میں پہلے مرحلے میں طبی عملے کو ویکسین لگائی جا رہی ہے، جس کے بعد سرکاری ملازمین اور ضعیف افراد کو ترجیح دی جائے گی۔
سری لنکا نے دس ماہ کے تعطل کے بعد ملک کو سیاحوں کے لیے دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم وزارت صحت کے مطابق ملک میں داخل ہونے والے مسافروں کو کورونا کا منفی نتائج والا ٹیسٹ دکھانا لازمی ہوگا اور انہیں اپنی نقل و حرکت بھی محدود رکھنا ہوگی۔
آسٹریلیا نے بھی بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے اسی قسم کی شرائط متعارف کرائی ہیں، تاہم نیوزی لینڈ اور کچھ دیگر پیسیفک جزائر کے لوگوں کو اس سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ آسٹریلیا میں کورونا سے پچھلے چار روز سے کسی نئی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ش ج / م م (اے پی، روئٹرز)
اقوام عالم کے ليے اس سال کے اہم ترین چيلنجز کون سے ہيں؟
کورونا وائرس کی عالمی وبا اور کئی ديگر وجوہات کی بنا پر سن 2020 دنیا کے ليے ايک بہت مشکل سال ثابت ہوا مگر 2021ء کيسا رہے گا؟ يوريشيا گروپ کے مطابق دنیا کے لیے رواں سال کے دس سب بڑے چيلنجز يہ ہيں۔
تصویر: John Macdougall/REUTERS
امریکا کے چھياليس ويں صدر
جو بائيڈن امريکی صدارتی انتخابات ميں فاتح رہے۔ گو کہ ٹرمپ يہ اليکشن ہارے، لیکن انہيں سن 2016 کے مقابلے ميں گيارہ ملين زیادہ ووٹ ملے۔ ٹرمپ کے حامی ان کی پھيلائی ہوئی افراتفری کو ’جرأت‘ کا نام دیتے ہیں۔ ٹرمپ ايک با اثر شخيت کی حيثيت سے وائٹ ہاؤس چھوڑ رہے ہيں اور اس وقت امريکی معاشرہ انتہائی منقسم ہے۔ کئی اداروں ميں قدامت پسندوں کا زور ہے۔ کيا چھياليس ويں امريکی صدر بائیڈن ان چيلنجز سے نمٹ پائيں گے؟
کورونا کی وبا کے طويل المدتی اثرات
کورونا کی وبا 2021ء ميں بھی نہ صرف انفرادی سطح پر لوگوں کی صحت اور زندگيوں بلکہ مجموعی طور پر عالمی سياسی استحکام اور معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی رہے گی۔ کئی ممالک ويکسينیشن پر توجہ مرکوز رکھيں گے تاہم اسی دوران وبا کے معاشی اور معاشرتی اثرات بھی نمودار ہوتے رہيں گے۔ کئی خطوں ميں بے روزگاری، نقل مکانی، عدم مساوات اور اعتماد کے فقدان جيسے مسائل ابھر سکتے ہيں۔
تصویر: Dinendra Haria/ZUMAPRESS/picture alliance
تحفظ ماحول
تحفظ ماحول کی کوششيں زور پکڑتی جا رہی ہيں، جس کے نتيجے ميں بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين کشيدگی بڑھ سکتی ہے۔ چين کی صنعتی پاليسی کو سنجيدہ چيلنجز سے نمٹنا پڑے گا۔ زہريلی گيسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنے کے ليے ہر سطح پر اور ہر ميدان ميں نئے مواقع پيدا ہوں گے۔ مگر ايسے ميں کسی کو مالی فائدہ ہو گا تو کسی کو نقصان۔
تصویر: Ahmad AL-BASHA/AFP
امريکا اور چين کے مابین کشيدگی
روايتی حريف ممالک امريکا اور چين کے مابين کئی معاملات پر کشيدگی ميں کمی کا امکان ہے کيونکہ دونوں ہی سياسی سطح پر استحکام کے خواہاں ہيں۔ مگر ہانگ کانگ، ويکسين ڈپلوميسی، قوم پرستی، تحفظ ماحول سے متعلق پاليسيوں اور دفاعی امور پر نئے اختلافات بھی زور پکڑيں گے۔
تصویر: Lintao Zhang/AP Images/picture alliance
انٹرنيٹ پر ڈيٹا کا تبادلہ
حساس ڈيٹا کے تبادلے ميں رکاوٹوں سے انٹرنيٹ پر برنس کا موجودہ ماڈل متاثر ہو گا۔ مصنوعی ذہانت اور فائيو جی جيسی ٹيکنالوجيز وسعت پائيں گی اور بڑی قوتيں ان کے ذريعے حساس ڈيٹا کے تبادلے سے متعلق اضافی شکوک و شبہات کا شکار ہوں گی۔ اس سال انٹرنيٹ پر ڈيٹا کے آزادانہ تبادلے کا مجموعی ماحول کافی حد تک تبديل ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Nicolas Asfouri/AFP/Getty Images
سائبر حملوں کا خطرہ، ہميشہ ہی حقيقی
ايسا کوئی مخصوص اشارہ نہيں کہ رواں سال سائبر حملوں کا خطرہ زيادہ ہے ليکن جيسے جيسے ہر ميدان ميں ڈيجیٹلائزيشن بڑھ رہی ہے، سائبر حملوں کا خطرہ حقيقی طور پر بڑھ رہا ہے۔ ہر کمپيوٹر، ہر موبائل فون يا ہر اسمارٹ ڈيوائس ہيکرز کے ليے ايک موقع فراہم کرتی ہے۔ رواں سال اس ماحول ميں اور بھی اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Colourbox
ترکی کا مستقبل
پچھلے سال اقتصادی ميدان اور کورونا سے نمٹنے ميں ناقص کارکردگی کيا صدر رجب طيب ايردوآن کو لے ڈوبے گی؟ وہ قريب دو دہائيوں سے اقتدار میں ہيں اور عوام ميں اب کچھ تھکاوٹ سی پائی جاتی ہے۔ يہ ماحول معاشرتی تقسيم کے علاوہ انہيں اس بات پر بھی مجبور کر سکتا ہے کہ وہ قوم پرستانہ رجحانات کو ہوا دينے کے ليے خارجہ سطح پر کوئی خطرہ مول لے ليں يا اپوزيشن کو نشانہ بنائيں۔ آئندہ انتخابات ميں کيا ہو گا؟
تصویر: Murat Cetinmuhurdar/Turkish Presidency/handout/picture alliance / AA
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ ہے۔ پچھلے سال توانائی کی مانگ ميں کمی کی وجہ سے تيل کی پيداوار سے منسلک ممالک بری طرح متاثر ہوئے۔ يہ سال تو اس سے بھی کٹھن ثابت ہو گا کيونکہ ايندھن کی قيمتوں ميں زيادہ اتار چڑھاؤ کا امکان کم ہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کی حکومتيں اخراجات کم کريں گی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ کئی ملکوں ميں عوامی احتجاجی تحريکيں بھی ديکھنے میں آ سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/H. Jamali
ميرکل کے بعد کا يورپ
اس سال جرمنی ميں عام انتخابات ہوں گے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کے بعد کے يورپ کے بارے میں سوچنا کئی لوگوں کے ليے واقعی ناقابل تصور بات ہے۔ پندرہ برس سے بھی زیادہ عرصے تک حکومت کرتے ہوئے ميرکل نے نہ صرف جرمنی بلکہ يورپ کو بھی کئی بحرانوں سے نکالا۔ ان کا سیاست کو الوداع کہنا اپنے پیچھے ايک بہت بڑا خلا چھوڑے گا، جس سے يورپی سطح پر اقتصادی بحالی اور بہت سے معاملات ميں خلل پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Markus Schreiber/REUTERS
لاطينی امريکا
مشرق وسطیٰ کے بعد پچھلے سال سب سے زيادہ متاثرہ خطہ لاطينی امريکا رہا۔ اس خطے کے ممالک کو ويسے ہی سياسی اور اقتصادی مسائل کا سامنا تھا اور يہی وجہ ہے کہ کورونا ويکسين کی دستيابی کے باوجود اکثر لاطينی امريکی ممالک ميں ويکسينیشن کا عمل شروع ہی نہ ہو سکا۔ اس سال ارجنٹائن اور ميکسيکو ميں عام انتخابات ہونا ہيں جبکہ چلی، پيرو اور ايکواڈور ميں نئے ملکی صدور کے ليے انتخابات بھی ہوں گے۔