جرمنی میں حکام نے نومبر میں جزوی لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے۔ لیکن بعض حلقوں میں سماجی پابندیوں کی مخالفت بڑھ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بڑے مظاہرے متوقع ہیں۔
اشتہار
لاک ڈاؤن کے خلاف جون اور جولائی میں بھی جرمن شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے دیکھے گئے۔ سماجی پابندیوں کے خلاف غم و غصہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔
یہ سب ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب جرمنی میں کورونا کے روزانہ نئے کیسز کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ چکی ہے جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ملک میں وائرس سے اموات کی تعداد گیارہ ہزار کے قریب ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں کیسز میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور جوں جوں اموات بڑھیں گی خطے کو "کٹھن" حالات کا سامنا ہوگا۔
مظاہرین کون ہیں؟
حکام کے مطابق پابندیوں اور لاک ڈاؤن کے مخالف تحریک ملک کے پچاس شہروں اور قصبوں تک پھیل چکی ہے۔ اس میں شامل لوگوں کا تعلق طرح طرح کی سیاسی سوچ رکھنے والے گروہوں سے نظر آتا ہے۔ ان میں انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو کے لوگوں کے ساتھ سازشی نظریات میں یقین رکھنے والے حلقوں کی بھی خاصی تعداد دیکھی گئی ہے۔
کئی لوگوں کو وائرس اور حکومتی اقدامات کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہیں تھیں اور وہ بظاہر سنی سنائی باتوں پر اشتعال انگیزی کرتے نظر آئے۔
تحریک کے حمایتوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ کورونا کی آڑ میں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ جرمن آئین کے تحت اپنے حقوق کے لیے یہ مزاحمت کررہے ہیں اور جلسے کرنا اور اپنی رائے کا اظہار کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
15 تصاویر1 | 15
جمہوریت کے تقاظے
مظاہرین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ جمہوری جدوجہد میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن جرمن حکام کو تشویش ہے کہ اس تحریک میں شامل لوگ آئینی حقوق کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور پرتشدد مظاہروں کی طرف جا سکتے ہیں۔
جرمن وزارت دفاع کےایک ترجمان نے کہا، "کورونا سے انکاری ان مظاہرین کا میڈیا، پولیس اور اپنے مخالفین کی طرف رویہ سخت اور زبانی طور پر قدرے جارہانہ ہوتا جا رہا ہے۔"
حکام کا خیال ہے کہ اس تحریک میں شامل گروہ حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
لیکن ان تحفظات کے باوجود حکومت اگر چاہے بھی تو ان مظاہروں پر پابندی نہیں لگاسکتی۔ چند مہینے پہلے دارالحکومت برلن میں حکام نے کورونا کے باعث ایسی ریلیوں کی اجازت دینے سے انکار کرنے کی کوشش کی لیکن پھر عدالتی احکامات کے تحت انہیں ان کی اجازت دینی پڑی۔
حکام کا کہنا ہے کہ جرمن آئین کی پاسداری حکومت کا فرض ہے۔ تاہم اگر مظاہرین نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور شہریوں کے لیے خطرہ بنے تو انہیں روکنے اور منتشر کرنے کے لیے پولیس کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔
جرمنی: کورونا وائرس کی ایک اور دوا کے تجربات کی منظوری