کورونا سے دنیا بھر میں ہلاکتیں سترہ ملین تک، عالمی ادارہ صحت
5 مئی 2022
عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ دو سال کے دوران کورونا وائرس کی عالمی وبا سے براہ راست یا اس کے اثرات کے نتیجے میں بالواسطہ طور پر کل سترہ ملین تک انسان ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد اب تک کی سرکاری تعداد کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔
اشتہار
سن 2020 اور 2021ء میں کووڈ انیس کے وبائی مرض سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور امریکی براعظموں میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے پانچ مئی جمعرات کے روز اس حوالے سے اپنے ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کو 'تشویشناک‘ قرار دیا۔
ٹیڈروس گیبریسس نے کہا کہ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے صرف یہی تجویز دی جا سکتی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کو اپنے ہاں صحت کے شعبے میں ہنگامی حالات سےنمٹنے کے لیے اپنی صلاحیتیں بڑھانے کی خاطر بہرصورت کافی زیادہ نئی سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کورونا کی عالمی وبا سے جڑی انسانی اموات کی مجموعی تعداد کے درست تعین کے ذمے دار طبی ماہرین اور سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق جنوری 2020ء سے لے کر دسمبر 2021ء کے درمیانی عرصے میں 13.3 ملین سے لے کر 16.6 ملین تک ایسی اموات ہوئی تھیں، جو یا تو کووڈ انیس کا براہ راست نتیجہ تھیں یا پھر جن میں اس عالمگیر وبا کے طبی اثرات نے بھی اہم کردار دا کیا تھا۔
کورونا وائرس بے قابو، بھارتی نظام صحت بے بس ہوتا ہوا
بھارت میں دن بدن پھلتے ہوئے کورونا وائرس بحران نے ملک کے صحت کے بنیادی ڈھانچے پر زبردست دباؤ ڈالا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں میڈیکل آکسیجن، ادویات اور ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کی اطلاع ہے۔
اس تصویر میں احمد آباد کے ایک ہسپتال کے باہر وفات پانے والے مریض کے رشتہ دار رو رہے ہیں۔ بھارت میں ہفتے کو ریکارڈ دو لاکھ چونتیس ہزار سے زائد کورونا کیسز درج کیے گئے تھے۔ کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی دو وجوہات ہیں، ایک کورونا وائرس کی نئی قسم ہے، جو تیزی سے پھیلتی ہے، دوسرا لوگ سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھتے۔
تصویر: Ajit Solanki/AP Photo/picture alliance
آکسیجن کی کمی
متعدد بھارتی ریاستوں میں میڈیکل آکسیجن کی کمی واقع ہو چکی ہے جبکہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ کم پڑ گئے ہیں۔ اتوار کو دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی کہا تھا کہ میڈیکل آکسیجن کی کمی ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے صنعتی پلانٹس سے میڈیکل آکیسجن طلب کی ہے۔
تصویر: Ajit Solanki/AP Photo/picture alliance
شمشان گھاٹ بھر گئے
بھارت میں وفات پانے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ شمشان گھاٹوں میں آخری رسومات کے لیے لائنیں لگ چکی ہیں۔ وہاں ملازمین کی شفٹیں کم از کم بھی چودہ گھنٹوں کی کر دی گئی ہیں۔
تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں کو کووڈ مریضوں کے بڑی تعداد کا سامنا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق متعدد ہسپتالوں میں کورونا میں مبتلا تشیویش ناک حالت کے مریضوں کو بھی بیڈ میسر نہیں ہے۔ انتہائی نگہداشت کے یونٹ بھرے پڑے ہیں۔ دہلی حکومت نے آکسیجن سے لیس نئے بیڈ متعدد اسکولوں میں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت نے دوا ساز کمپنیوں سے ادویات اور طبی آکسیجن کی سپلائی بڑھانے کی اپیل کی ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق متاثرہ ریاستوں تک ادویات اور آکسیجن پہنچانے کے لیے خصوصی ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ بھارت میں ادویات اور آکسیجن بلیک مارکیٹ میں بکنا شروع ہو گئی ہے جبکہ استطاعت رکھنے والے مہنگے داموں خرید رہے ہیں۔
اس کی ایک مثال ایسی اموات کی بھی ہے، جن میں کینسر یا دیگر مہلک بیماریوں کے مریضوں کا اس وجہ سے ہسپتالوں میں بروقت علاج نہ ہو سکا کہ تب بیسیوں ممالک کے صحت کے نظام شدید دباؤ کا شکار تھے اور ہسپتال عموماﹰ کورونا وائرس کے مریضوں سے ہی بھرے رہتے تھے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی یہ تازہ رپورٹ دنیا کے بہت سے ممالک کی جانب سے مہیا کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔ یہ ممالک خود اس بات کا تعین نہ کر سکے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران وہاں کورونا وائرس کے سبب براہ راست اموات کتنی تھیں اور بالواسطہ ہلاکتیں کتنی۔
امریکہ میں قائم ییل اسکول آف پبلک ہیلتھ سے وابستہ وبائی امراض کے ماہر البرٹ کو کا کہنا ہے، ''کورونا وائرس کے باعث انسانی اموات کی ایسی گنتی بظاہر لاتعداد گٹھلیاں گننے جیسا مشکل کام ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کے یہ اعداد و شمار اب تک جاری اس وبا سے نمٹنے اور مستقبل کی تیاری کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘‘
طبی ماہرین کے لیے دنیا بھر میں اس وبا کی وجہ سے ہونے والی مجموعی انسانی اموات کی حقیقی تعداد کا تعین اس بنا پر بھی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے کہ مختلف ممالک کی اپنے ہاں کورونا ٹیسٹنگ کی صلاحیتیں بہت متنوع اور محدود بھی تھیں اور وہاں ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے اپنائے گئے طریقے بھی ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھے۔
ش ر / م م (اے پی، اے ایف پی)
مزدور اور مالک کا يکساں دشمن، کورونا
کورونا کی عالمی وبا نے تمام شعبوں کو منفی طور پر متاثر کيا ہے مگر سب سے پريشان کن امر غربت ميں اضافہ ہے۔ اس تصويری گيلری ميں ديکھيے کہ متاثرين کی تعداد کتنی ہے اور وہ کيسے متاثر ہوئے ہيں۔
تصویر: DW/P.N. Tewari
دس کروڑ اضافی افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے
کورونا کی عالمی وبا کے دور ميں ملازمت کے مواقع ميں کمی، کام کاج کے محدود اوقات، اجرتوں ميں کٹوتی اور ديگر کئی وجوہات کی بنا پر دنيا بھر ميں اضافی دس کروڑ افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ نے اپنی تازہ رپورٹ ميں کيا ہے، جو بدھ دو جون کو جاری کی گئی۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
نوکريوں کا فقدان
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن (ILO) نے اپنی ايک حاليہ رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا تھا کہ اس سال کے اختتام پر وبا کی وجہ سے ملازمت کے مواقع پچھتر ملين کم ہوں گے۔ يعنی اگر وبا نہ ہوتی، تو سن 2021 کے اختتام پر پچھتر ملين ملازمتيں زيادہ ہوتيں۔ مزيد يہ کہ اب بھی اس سال مزيد ملازمت کے تيئیس ملين مواقع کم ہو سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/Yonhap
بے روزگاری ميں بھی اضافہ
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2019 کے اختتام پر دنيا بھر ميں بے روزگار افراد کی تعداد 187 ملين تھی، جو اگلے سال يعنی سن 2022 کے اختتام پر 205 ملين ہو گی۔ اس ادارے نے تنبيہ کی ہے کہ حقيقی صورتحال سرکاری اعداد و شمار سے کہيں بدتر ہو سکتی ہے۔ يہ تصوير لاس اينجلس کے ايک مرکز کی ہے، جہاں بے روزگار افراد امدادی رقوم کے ليے درخواستيں جمع کرا رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. J. Sanchez
ان گنت مواقع ضائع
گزشتہ برس يعنی سن 2020 ميں دنيا بھر ميں کام کاج کے گھنٹوں ميں 8.8 فيصد کی کمی نوٹ کی گئی، جو 255 ملين فل ٹائم ملازمت کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
بڑھتی ہوئی غربت
ملازمت اور آمدنی ميں کمی کی وجہ سے 108 ملين مزيد افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے، جس کا مطلب ہے کہ تين ڈالر بيس سينٹ کے برابر مقامی رقوم سے بھی کم ميں ان کا روزانہ کا گزر بسر چل رہا ہے۔ تصوير ميں جنوبی افريقی شہريوں کا ايک گروپ احتجاج کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/D. Lloyd
غير رسمی سيکٹر، سب سے زيادہ متاثرہ
دنيا بھر ميں لگ بھگ دو بلين افراد غير رسمی سيکٹر سے منسلک ہيں۔ ايسی ملازمتوں ميں ويسے ہی تحفظ اور امداد کم ہوتی ہے اور نتيجتاً ان سيکٹرز ميں کام کرنے والے افراد کو تباہ کن نتائج کا سامنا ہے۔ تصوير بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ہے، جہاں چند نابالغ بچے کام کاج کا سامان ليے چل رہے ہيں۔
تصویر: AP
عورتيں، مردوں سے زيادہ تکليف ميں
رپورٹ ميں اس طرف سے توجہ دلائی گئی ہے کہ عورتيں مردوں کے مقابلے ميں زيادہ متاثر ہوئی ہيں۔ ان پر بچوں کی گھروں پر ديکھ بھال، اسکول وغيرہ کی ذمہ دارياں بڑھ گئی ہيں۔