کورونا سے لڑائی میں اینٹی ملیریا دوائیں کتنی مددگار؟
شاہ زیب جیلانی
10 اپریل 2020
پاکستان میں بعض ڈاکٹروں نے ملیریا کی دواؤں سے کورونا کے مریضوں کے علاج کے دعوے کیے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دواؤں پر ابھی تحقیق چل رہی اور ان کا بےجا اور غلط استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کی نئی مہلک قسم کا علاج ڈھونڈنے کے لیے دنیا بھر میں کم از کم اڑسٹھ مختلف پراجیکٹس پر کام چل رہا ہے۔ ویکسین پر تحقیق کا یہ کام امریکا، اسرائیل، چین، جرمنی، ہانگ کانگ، فرانس، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ملکوں میں جاری ہے۔
لیکن جرمن فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے مطابق اگر اس سال کووڈ ۱۹ کی ویکسین کا علاج مل بھی جائے تب بھی اسے عام شہریوں تک پہنچانے میں وقت لگے گا۔
ایسے میں اس وبا کے نشانے پر موجود ملکوں کے پاس دو ہی راستے ہیں: وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لمبے عرصے کے لیے لاک ڈاؤن کریں یا پھر پہلے سے موجود کچھ دواؤں کو کورونا کے مریضوں پر آزمائیں۔
ان دواؤں میں اینٹی وائرل ادویات شامل ہیں جو کورونا وائرس کی پچھلی قسموں ''مارس‘‘ اور ''سارس‘‘ کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی تھیں۔
لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان سمیت کئی ممالک میں جن دواؤں کا زیادہ چرچا ہوا ہے وہ ڈاکٹروں کی جانی مانی اینٹی ملیرا دوائیں ہیں، جن میں ''ریسوچن‘‘نمایاں ہے۔
پاکستان کے دیہاتوں میں مچھروں کے کانٹنے اور بخار سے نمٹنے کے لیے ریسوچن کی گولیاں عام استعمال میں رہی ہیں۔ یہ دوائی انیس سو تیس کی دہائی میں جرمنی میں بائر لیبارٹری نے تیار کی تھی۔ لیکن آج دنیا میں یہ دوا بنانے والی واحد فیکٹری پاکستان میں ہے۔
ریسوچن کی گولیوں کی خاص بات ''کلوروکوئن فاسفیٹ‘‘ ہے، جو بعض ماہرین کے مطابق کورونا انفیکشن سے لڑنے میں مؤثر ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ماہ جب چین کی حکومت کورونا کے بحران سے نبردآزما تھی تب پاکستان نے بیجنگ حکومت کی مدد کے لیے اسے فوری طور پر ریسوچن کی تین لاکھ گولیاں پہنچائیں۔
اس کے بعد پاکستان کے بڑے شہروں میں فارمیسی اسٹورز سے ریسوچن اور دیگر اینٹی ملیریا دوائیں اس تیزی سے فروخت ہوئیں کہ بخار کے مریضوں کو یہ مل نہیں پا رہی تھیں۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ابھی یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ پہلے سے موجود یہ دوائیں کورونا کے خلاف کتنی مؤثر ہیں اور مریضوں کے لیے ان کے ممکنہ نقصانات کیا ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کچھ روز پہلے ان دواؤں کو کورونا کے علاج کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن امریکا میں محکمہ صحت کے ماہرین نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور شہریوں کو تلقین کی کہ جب تک ماہرین کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتے وہ کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ان ادویات کے بےجا اور غلط استعمال سے گریز کریں۔
بائر کا شمار دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ کورونا کے بحران کے بعد اس جرمن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اب تیزی سے یورپ میں اس دوا کا پلانٹ لگانے جا رہی ہے تاکہ حکومتوں کو مزید ٹرائل اور ٹیسٹنگ کے لیے کلوروکوئن مہیا کیا جا سکے۔ جرمنی کی وزارت صحت نے کمپنی کو پہلے ہی اس دوا کی بہت بڑی کھیپ کا آرڈر دے دیا ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے يوميہ بنيادوں پر منفی خبريں اور پيشرفت سامنے آ رہی ہيں تاہم دنيا بھر ميں معالج، محققين، سائنسدان، سياستدان، صحافی و ديگر شعبہ جات سے وابستہ افراد موجودہ بحران کو مات دينے کے ليے دن رات سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Ujetto
پاکستان ميں وائرس کی شدت ممکنہ طور پر کم
سائنسدان ڈاکٹر عطا الرحمن نے ايک مقامی صحافتی ادارے کو بتايا کہ پاکستان میں کورونا وائرس میں پائے جانے والے کروموزومز چین سے مختلف ہیں اور امکاناً ان کی شدت کم ہے۔ ان کے بقول يہ تحقیق کراچی کے جمیل الرحمان سینٹر فار جینومکس ریسرچ ميں کی گئی۔ اس کا عملی طور پر مطلب يہ نکل سکتا ہے کہ شايد بيماری کی شدت بھی کم ہو۔ مگر طبی ذرائع سے اس بارے ميں مزيد تحقيق و ضاحت درکار ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مليريا کے خلاف کارآمد ادويات کی امريکی اتھارٹی سے منظوری
’امريکی فوڈ اينڈ ڈرگ ايڈمنسٹريشن‘ اتھارٹی (FDA) نے نئے کورونا وائرس کے چند مخصوص اور ہنگامی صورت حالوں ميں علاج کے ليے مليريا کے خلاف کارآمد دو مختلف ادويات کی منظوری دے دی ہے۔ انتيس مارچ کو سامنے آنے والی اس پيش رفت ميں ايف ڈے اے نے بتايا کہ کووڈ انيس کے علاج کے ليے chloroquine اور hydroxychloroquine پر تحقيق جاری ہے۔ امريکی صدر نے پچھلے ہفتے ان دو ادويات کو ’خدا کی طرف سے تحفہ‘ بھی قرار ديا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Julien
تحليق و تحقيق کا نتيجہ، سانس ميں مدد فراہم کرنے والا آلہ
فارمولا ون کی جرمن کار ساز کمپنی مرسڈيز نے ايک آلہ تيار کر ليا ہے، جو کووڈ انيس کے ان مريضوں کے ليے موزوں ثابت ہو گا جنہيں انتہائی نگہداشت درکار ہو۔ يہ يونيورسٹی کالج لندن کے اشتراک سے تيار کيا گيا۔ CPAP نامی يہ آلہ ناک اور منہ کے ذریعے آکسيجن پہنچاتا رہتا ہے اور مريض کے پھيپھڑوں ميں زيادہ آکسيجن جاتی ہے۔ توقع ہے کہ اس آلے ميں رد و بدل کے بعد وينٹيليٹرز کی شديد قلت کے مسئلے سے نمٹا جا سکے گا۔
تصویر: Universität Marburg/Martin Koch
کئی ملکوں ميں ويکسين کی آزمائش جاری
اگرچہ ماہرين بار بار دہرا رہے ہيں کہ وائرس کے انسداد کے ليے کسی ويکسين کی باقاعدہ منظوری و دستيابی ميں ايک سال سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے، کئی ممالک ميں ويکسين کی آزمائش جاری ہے۔ ’جانسن اينڈ جانسن‘ کی جانب سے تيس مارچ کو بتايا گيا ہے کہ ويکسين کی انسانوں پر آزمائش ستمبر ميں شروع ہو گی اور کاميابی کی صورت ميں يہ آئندہ برس کے اوائل ميں دستياب ہو سکتی ہے۔ مارچ ميں کئی ممالک ميں ويکسين کی آزمائش جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Guan
مالی نقصانات کے ازالے کے ليے امدادی پيکج
ہر ملک اپنے وسائل کے مطابق امدادی سرگرمياں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امريکا ميں متاثرہ کاروباروں کے ليے 2.2 کھرب ڈالر کے امدادی پيکج کی منظوری دی جا چکی ہے۔ جرمنی نے بھی لاک ڈاؤن کے باعث مالياتی نقصانات کے ازالے کے ليے ساڑھے سات سو بلين ڈالر کے ريسکيو پيکج پر اتفاق کر ليا ہے۔ پاکستان نے يوميہ اجرت پر کام کرنے والوں کو چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ دینے کے ليے دو سو ارب روپے کا پیکج منظور کر ليا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
ماحول پر مثبت اثر
کورونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر متعارف کردہ بندشوں کے نتيجے ميں کئی بڑے شہروں ميں فضائی آلودگی ميں واضح کمی ديکھی گئی ہے۔ روم، ميلان، نئی دہلی، بارسلونا، پيرس، لندن لگ بھگ تمام ہی بڑے شہروں کی ہوا ميں پچھلے دو ہفتوں کے دوران نائٹروجن ڈائی آکسائڈ (NO2) کی مقدار ميں چوبيس تا چھتيس فيصد کمی نوٹ کی گئی۔ يہ اعداد و شمار ’يورپی انوائرمنٹ ايجنسی‘ (EEA) نے جاری کيے۔
تصویر: Reuters/ESA
چين ميں وبا بظاہر کنٹرول ميں
کورونا وائرس کی نئی قسم کے اولين کيسز چينی صوبہ ہوبے کے شہر ووہان ميں سامنے آئے تھے۔ سخت اقدامات اور قرنطينہ کی پاليسی رنگ لائی اور دو ڈھائی ماہ کی دقت کے بعد اب ووہان ميں عائد پابندياں آہستہ آہستہ اٹھائی جا رہی ہيں۔ چين ميں پچھلے قريب ايک ہفتے کے دوران مقامی سطح پر نئے کيسز بھی شاذ و نادر ہی ديکھے گئے۔ يوں سخت قرنطينہ کی پاليسی بظاہر با اثر رہی۔
تصویر: Getty Images/K. Frayer
جنوبی کوريا کی کامياب حکمت عملی
چند ہفتوں قبل چين کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زيادہ کيسز جنوبی کوريا ميں تھے۔ تاہم آج پوری دنيا سيول حکومت کی تعريف کے پل باندھ رہی ہے کہ کس طرح اس ملک نے وبا پر کنٹرول کيا۔ پير تيس مارچ کو جنوبی کوريا ميں کووڈ انيس کے اٹھہتر کيسز سامنے آئے۔ جنوبی کوريا نے وسيع پيمانے پر ٹيسٹ کرائے، حتی کہ گاڑی چلانے والے بھی رک کر ٹيسٹ کرا سکتے تھے۔ يوں مريضوں کی شناخت اور پھر علاج ممکن ہو سکا۔
تصویر: Imago Images/Xinhua/Wang Jingqiang
صحت ياب ہونے والوں کی تعداد حوصلہ بخش
تيس مارچ تک دنيا بھر ميں ايک لاکھ چھپن ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس سے صحت ياب بھی ہو چکے ہيں۔ چين ميں صحت ياب ہونے والوں کی تعداد پچھتر ہزار سے زيادہ ہے۔ اسپين ميں لگ بھگ سترہ ہزار، ايران ميں چودہ ہزار، اٹلی ميں تيرہ ہزار سے زائد اور جرمنی ميں نو ہزار سے زائد افراد صحت ياب ہو چکے ہيں۔ جرمنی ميں شرح اموات اعشاريہ نصف سے بھی کم ہيں يعنی درست حکمت عملی با اثر ثابت ہو سکتی ہے۔