کورونا نے پاکستانی خواجہ سراؤں کی مشکلات مزید بڑھا دیں
5 ستمبر 2020
پاکستانی خواجہ سراؤں کی کمیونٹی کو ملک میں ثقافتی اور قانونی استحصالی رویوں کا سامنا ہے۔ اب کورونا کی وبا نے اس کمیونٹی کی حیات کو مزید پریشانیوں سے دوچار کر دیا ہے۔
اشتہار
پاکستان میں کئی ایسی انسانی گروہ ہیں، جنہیں انتہائی مشکل اور نامساعد حالات کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں ایک ٹرانس جینڈر (مخنث یا ہیجڑے) افراد کی کمیونٹی بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ایک ٹرانس جینڈر شائستہ کا کہنا تھا،'' کورونا لاک ڈاؤن کے بعد میرے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں اور ابھی تک پابندیاں ختم ہونے کے بعد بھی مشکلات میں کمی نہیں ہوئی، عام لوگ اب بھی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی یہ کمیونٹی غیر رسمی انداز میں روزگار کمانے پر مجبور ہے۔ یہ بھی ایک کڑوی صداقت ہے کہ ٹرانس جینڈر بازاروں میں بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں یا پھر ان کو ایک سیکس ورکر کے طور پر لیا جاتا ہے۔
اس کمیونٹی کو نظر انداز کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی اور انسان کے وقار کے احترام کے رویے کی کمیابی ہے۔ ٹرانس جینڈر کو ثقافتی تناظر میں بھی کمتر خیال کیا جاتا ہے تو ملکی نظام میں بھی ان کی کوئی وقعت نہیں دیکھی جاتی۔ اس عام متعصبانہ اور استحصالی رویے کی بنیادی وجہ آگہی و شعور کی کمی اور روزگار کے عدم مواقع ہیں۔
کورونا وائرس کی افزائش رواں برس مارچ میں شروع ہوئی تو لاک ڈاؤن اور دوسری پابندیوں بشمول سوشل ڈسٹینسنگ کا سامنا سبھی کو کرنا پڑا۔ ان پابندیوں نے ٹرانس جینڈرز کی معاشی مشکلات کو دوچند کر دیا اور انہیں پیٹ بھر کر روٹی کا ملنا بھی ممکن نہ رہا۔ ایک اور ٹرانس جینڈر نایاب علی کا کہنا ہے کہ اس کو مالک مکان نے کرایے کے اپارٹمنٹ سے بیدخل کر دیا تھا کیونکہ اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا تھا۔ نایاب علی پاکستان کے ان تھوڑے سے ٹرانس جینڈرز میں سے ایک ہے، جو باقاعدہ ملازمت کرتے ہیں۔ ایسا عام تاثر ہے کہ یہ افراد کورونا کی پکڑ میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں اس کمیونٹی کے حوالے سے یہ تعصب بھی پایا جاتا ہے کہ یہ صفائی پسند اور حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے۔ ایسے ہی دوسرے تعصبات کی وجہ سے یہ عام زندگی کے مرکزی دھارے سے بہت دور ہیں۔ ان میں سے تقریباً نو فیصد بطور سیکس ورکر روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرتے ہیں جب کہ تقریباً آٹھ فیصد کے روزگار کا انحصار شادی بیاہ یا سالگرہ یا بچے کی ولادت پر ڈانس کرنے پر ہے۔
سن 2019 میں سپریم کورٹ کے حکم پر مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے تقریباً تین لاکھ نفوس ہیں۔ بعض ذرائع کا خیال ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہے اور کئی ایسے افراد نے خود کو خاص طور پر جنسی حراسانی کے ڈر سے رجسٹر کرانے سے اجتناب کیا تھا۔ پاکستانی آبادی کا حجم اکیس کروڑ سے زائد ہے۔
سن 2016 میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی ایک سرگرم کارکن علیشا کو خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں سات مرتبہ گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ہلاکت کے وقت علیشا کی عمر صرف تئیس برس تھی۔ ہسپتال میں تعصبانہ مخمصے کا یہ عالم تھا کہ طبی عملہ ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے سے قبل یہ طے نہیں کر پایا کہ علیشا کو مرد کی کیٹیگری میں لکھیں یا خاتون کی۔
دوسری جانب اس کمیونٹی کو دستور اور قانون کے تحت بنیادی حقوق اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ اس کمیونٹی کو پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کا حق بھی سن 2011 میں دیا گیا تھا۔ سن 2018 کی قومی مردم شماری میں ان کو علیحدہ شناخت فراہم کی گئی۔ پاکستانی دستور ٹرانس جینڈر افراد کو مساوی معاشی حقوق فراہم کرتا ہے لیکن حقیقت میں اس پر عمل نہ ہونے کے برابر کیا جاتا ہے۔ موروثی جائیداد میں حصہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور مرنے کے بعد کی آخری رسومات میں رشتہ دار اور دوست شریک ہونے سے دور بھاگتے ہیں۔
رپورٹ: ماورا باری (ع ح، ا ا)
جینڈر ایکس: پاکستانی ٹرانس جینڈرز کی زندگی پر بنی دستاویزی فلم
جرمن فوٹوگرافر اور فلم ساز مانولو ٹائے نے پاکستان میں بسنے والے اقلیتی طبقے خواجہ سراؤں یا ٹرانس جینڈر افراد کی زندگی پر خصوصی دستاویزی فلم بنائی ہے۔ Gender X کے چند اہم کرداروں کی کہانی جانیے اس خصوصی پکچر گیلری میں۔
تصویر: Manolo Ty
سڑکوں پر بھیک مانگتے خواجہ سرا
پاکستان کے بڑے شہر لاہور میں ایک نوجوان ٹرانس جینڈر خاتون ٹریفک کے رش کے اوقات کے دوران بھیک مانگ رہی ہے۔ ہر شب کی طرح، آج بھی اس کے گُرو نے اپنی ہجڑا برادری کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے لیے اسے بھیجا تھا، جہاں اس کی رہائش ہے۔
تصویر: Manolo Ty
گداگری، جسم فروشی اور رقص
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ثقافتی تقریب کے دوران ایک بزرگ ہجڑا روایتی لباس میں رقص کر رہا ہے۔ گداگری اور جسم فروشی کے علاوہ رقص خواجہ سراؤں کی آمدنی کے تین اہم ذرائع میں سے ایک ہے۔
تصویر: Manolo Ty
پناہ کی تلاش میں پاکستان سے ہالینڈ کا سفر
اسلام آباد میں فیشن شوٹ کے دوران ایک پشتون انسانی حقوق کی کارکن عنایہ۔ 2016 میں امریکی دستاویزی فلم ’بلیک آؤٹ‘ میں منظر عام پر آئیں۔ پاکستان میں عنایہ ٹرانس جینڈر تحریک کی چند نامور شخصیات میں سے ایک ہیں۔ یہ تصویر بنوانے کے دو ماہ بعد اسے پاکستان سے فرار ہونا پڑا کیونکہ اس کے اہل خانہ نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اب عنایہ ہالینڈ میں رہتی ہے۔ اس کی کہانی دستاویزی فلم Gender X کا ایک حصہ ہے۔
تصویر: Manolo Ty
ٹرانس جینڈر خواتین کی روز مرہ کی زندگی
ٹرانس جینڈر خواتین لوڈوکھیل رہی ہیں۔ بہت ساری ٹرانس جینڈر خواتین کو کم عمری میں ہی اپنے اہل خانہ سے الگ کر کے نام نہاد ’گرو‘ یعنی خواجہ سراؤں کی برادری میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ گرو کے پاس انہیں نہ صرف پناہ ملتی ہے بلکہ ایک نیا خاندان بھی مل جاتا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
پاکستان کی پہلی ’ٹرانس ماڈل‘
کامی سڈ کراچی میں اپنے اپارٹمنٹ میں ہے۔ انگریزی اخبار گارڈین نے کامی کو پاکستان کی پہلی ’ٹرانس ماڈل‘ قرار دیا۔ پاکستانی معاشرے میں جس حقارت کی نظر سے ٹرانسجینڈر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے، کامی سڈ ان دقیانوسی خیالات کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
تصویر: Manolo Ty
کاسٹریشن یعنی ’آختہ کاری‘
کراچی میں شہزادی اپنے کمرے میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کی حیثیت سے اپنی نئی ملازمت کی تیاری کر رہی ہے۔ دو سال قبل ، کاسٹریشن یعنی ’آختہ کاری‘ کے بعد اس کی صحت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ بعد ازاں شہزادی جسم فروشی کا کام چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔
تصویر: Manolo Ty
تیسری جنس کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ
پشاور میں انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ اپنے گھر میں بستر پر بیٹھی ہیں۔ فرزانہ تیسری جنس کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے والی پہلی شخص ہے۔ انہوں نے خود کو تیسری جنس کے ساتھ رجسٹرڈ کروایا۔ فرزانہ پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کے ایک دن بعد مانولو نے یہ تصویر کھینچی تھی۔ تذلیل کی نشانی کے طور پر، ان کے حملہ آوروں نے ان کے لمبے لمبے بال کاٹ دیے۔
تصویر: Manolo Ty
’’اس ہی طرح پیدا ہوئی‘‘
’بریسٹ ایمپلانٹیشن‘ یعنی نئی چھاتی حاصل کرنے کے لیے کامیاب سرجری کے 8 ہفتوں بعد، رومیسا کراچی میں اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھی ہیں۔ رومیسا شہر کے ایک پوش علاقے میں اپنے دوست کے ساتھ رہتی ہے اس کے باوجود وہ خود کو حجڑا برادری کا حصہ سمجھتی ہے اور اپنے حقوق کے لیے لڑتی ہے۔ بائیں بازو پر نقش ٹیٹو میں "Born this way" یعنی ’’اس ہی طرح پیدا ہوئی‘‘ لکھا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
ٹرانس جینڈر افراد اور سوشل میڈیا
کراچی کے ایک نواحی علاقے میں دو خواجہ سراہ افراد اپنا فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا نے پاکستانی معاشرے میں ٹرانس جینڈر برادری کو آواز دی ہے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا یہ ان کا پسندیدہ پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے لڑائی
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل 2018 ءکے بارے میں کراچی کے قریب خواجہ سراہ کمیونٹی اجلاس، کچھ ہی دیر بعد پاکستانی سینیٹ نے اس بل کی توثیق کردی۔
تصویر: Manolo Ty
مانولو ٹائے کی خصوصی ڈاکیومنٹری Gender X
جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹائے کی خصوصی ڈاکیومنٹری ’جینڈر ایکس‘ اقوام متحدہ کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ یہ فلم یورپ کے متعدد فلم فیسٹیول میں بھی نمائش کے لیے پیش کی جاچکی ہے۔ کراچی کے گوئتھے انسٹیٹیوٹ میں 5 دسمبر کو ہیومن رائٹس ریل فیسٹیول میں دکھائی جائے گی جبکہ 9 دسمبر کو اسلام آباد میں سنیماٹوگرافی کے ذریعے انسانی حقوق کے فلم فیسٹیول کی زینت بنے گی۔