کورونا وائرس: امریکا نے قرنطینہ کا دورانیہ کم کر دیا
28 دسمبر 2021
امریکا کے متعدی امراض کے روک تھام اور بچاؤ کے ادارے سی ڈی سی کے مطابق 'معاشرے کو چلتا رکھنے کے لیے‘ قرنطینہ کا وقت دس دن سے کم کر کے پانچ دن کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
امریکی 'سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن‘ سی ڈی سی کے مطابق اب تک کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا انفیکشن کا شکار ہونے والے افراد کووڈ کی علامات ظاہر ہونے سے دو روز قبل اور علامات ظاہر ہونے کے تین دن بعد تک دیگر لوگوں کو یہ وائرس آگے منتقل کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
سی ڈی سی نے ایسے افراد کے لیے بھی قرنطینہ کے دورانیے میں تبدیلی کی ہے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی اور وہ کووڈ انیس کا شکار ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے بھی جو کورونا ویکسین تو کرا چکے ہیں اور بوسٹر ڈوز کے منتظر ہیں۔
سی ڈی سی کے مطابق ایسے افراد کے لیے ''اب پانچ دن کے لیے قرنطینہ میں رہنا تجویز کیا جا رہا ہے، جبکہ اس کے بعد پانچ دن مزید ماسک کا سختی سے استعمال کیا جائے۔‘‘
ایسے افراد جنہوں نے بوسٹر ڈوز لگوائی ہے انہیں قرنطینہ ہونے کی ضرورت نہیں تاہم انہیں دس دن تک ماسک کے استعمال سختی سے ضرورت ہو گی۔
خیال رہے کہ سی ڈی سی کی تجاویز پر عمل کرنا لازمی نہیں ہوتا مگر امریکی کاروباری ادارے اور پالیسی ساز ان کو ضرور مدنظر رکھتے ہیں۔
ایشیا سے امریکا تک، ماسک کی دنیا
آغاز پر طبی ماہرین نے ماسک پہننے کو کورونا وائرس کے خلاف بے اثر قرار دیا تھا لیکن اب زیادہ سے زیادہ ممالک اسے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری سمجھ رہے ہیں۔ ایشیا سے شروع ہونے والے ماسک پہننے کے رجحان پر ایک نظر!
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
گلوز، فون، ماسک
جرمنی بھر میں ماسک کب لازمی قرار دیے جائیں گے؟ انہیں ایشیا میں کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ جرمنی کے روبرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے بھی ماسک پہننے کی تجویز دی ہے۔ یینا جرمنی کا وہ پہلا شہر ہے، جہاں عوامی مقامات اور مارکیٹوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
تصویر: Imago Images/Sven Simon/F. Hoermann
اپنی مدد آپ کے تحت
عالمی سطح پر ماسکس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں کئی لوگ ماسک خود بنانے کا طریقہ سیکھا رہے ہیں۔ یوٹیوب اور ٹویٹر پر ایسی کئی ویڈیوز مل سکتی ہیں، جن میں ماسک خود بنانا سکھایا گیا ہے۔ جرمن ڈیزائنر کرسٹین بوخوو بھی آن لائن ماسک بنانا سیکھا رہی ہیں۔ وہ اپنے اسٹوڈیو میں ریڈ کراس اور فائر فائٹرز کے لیے بھی ماسک تیار کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
مسکراہٹ
جرمن شہر ہنوور کی آرٹسٹ منشا فریڈریش بھی کورونا وائرس کا مقابلہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے تیار کردہ ماسک مسکراتے ہوئے چہروں اور معصوم جانوروں کی شکلوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ اس آرٹسٹ کے مطابق وہ نہیں چاہتیں کہ وائرس لوگوں کی خوش مزاجی پر اثر انداز ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
رنگین امتزاج
جمہوریہ چیک اور سلوواکیہ ایک قدم آگے ہیں۔ دونوں ملکوں نے ہی مارچ کے وسط میں عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔ سلوواکیہ کی خاتون صدر اور وزیراعظم بطور مثال خود ماسک پہن کر عوام کے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد آسٹریا نے بھی دوران خریداری ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Svitok
چین میں بہار
چین میں کسی وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک پہن کر رکھنا روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے شروع میں ہی وہاں لوگوں نے ماسک پہننا شروع کر دیے تھے۔ وہاں اس وبا کے باوجود یہ جوڑا محبت کے شعلوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور باقی دنیا سے بے خبر بہار کا رقص کر رہا ہے۔
تصویر: AFP
اسرائیل، سب برابر ہیں
اسرائیل میں بھی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ پولیس اور فوج مل کر وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے کرفیو کو نافذ العمل بنا رہے ہیں۔ آرتھوڈکس یہودی بھی ان قوانین سے مبرا نہیں ہیں۔ یروشلم میں ایک پولیس اہلکار الٹرا آرتھوڈکس یہودی کو گھر جانے کی تلقین کر رہا ہے۔
تصویر: picture-lliance/dpa/I. Yefimovich
غزہ میں آرٹ
گنجان آباد غزہ پٹی میں لوگ ماسک کے ذریعے اپنی فنکارانہ صلاحیتیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ غزہ حکام نے تمام تقریبات منسوخ کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ تیس مارچ کو اسرائیل کی سرحد کے قریب طے شدہ سالانہ احتجاجی مظاہرہ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Wire/A. Hasaballah
ماکروں کے گمشدہ ماسک
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں حفاظتی سوٹ اور ماسک تیار کرنے والی ایک فیکٹری کا دورہ کر رہے ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹروں نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی سازوسامان مہیا کرنے میں ناکامی پر حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ حفاظتی سامان نہ ہونے کے باوجود بہت سے ڈاکٹروں نے مریض کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کا علاج کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Venance
8 تصاویر1 | 8
قرنطینہ سے متعلق قواعد میں تبدیلی کیوں کی گئی؟
امریکا میں کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے سبب کورونا انفکیشنز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مگر دوسری جانب قرنطینہ کے دورانیے کے سبب بہت سی صنعتوں پر منفی اثرات کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
سی ڈی سی کی ڈائریکٹر روشال ویلنسکی کے بقول اومیکرون سے متاثرہ افراد میں بیماری کی شدت بہت زیادہ نہیں ہے، ''تمام کیسز میں بہت زیادہ شدت نہیں ہوتی۔ بلکہ کافی سارے لوگوں میں تو اس کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔‘‘
ویلنسکی کے مطابق، ''ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سائنسی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار موجود ہو کہ ہم معاشرے کو حفاظت کے ساتھ فعال رکھ سکیں۔‘‘
امریکا میں متعدی بیماریوں سے بچاؤ اور روک تھام کے اس محکمے نے طبی شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے قرنطینہ کے قواعد تبدیل کیے تھے اور کہا تھا کہ ایسے افراد جن کا کووڈ ٹیسٹ نیگیٹیو آ چکا ہے اور ان میں علامات نہیں ہیں تو وہ انفیکشن ہونے کے ساتھ سات دن بعد کام پر لوٹ سکتے ہیں۔