یورپ میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے واقعات کے مدنظر فرانس نے دوسری مرتبہ تقریباً مکمل اور جرمنی نے جزوی لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ پیر دو نومبر سے ملک بھر میں جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہو جائے گا۔ دوسری طرف فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے فرانس میں پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران کووڈ19کے 36000 سے زیادہ نئے کیسز سامنے آنے کے بعد آئندہ جمعے سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
'صورت حال سنگین‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا”ہمیں انتہائی سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ پچھلے 10 دنو ں کے دوران انٹینسیو کیئر یونٹوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد دوگنا ہوگئی ہے اور کئی علاقوں میں انفیکشن کے سلسلے پر نگاہ رکھنا اور پتہ لگانا ممکن نہیں ہوپارہا ہے۔ 75 فیصد کیسز میں انفیکشن کے ذرائع کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ انہوں نے کہا”اگر انفیکشن کا سلسلہ اسی شرح سے برقرار رہا تو ہمارے نظام صحت کی صلاحیت اپنے حد تک پہنچ جائے گی۔"
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: AFP/H. Neubauer
9 تصاویر1 | 9
انگیلا میرکل کا کہنا تھا،”یہی وجہ ہے کہ آج فیصلہ سازوں کے لیے بھی صورت حال مشکل ہو گئی ہے۔" انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ انہیں کن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیا بند اور کیا کھلے رہیں گے
نئی پابندیاں دو نومبر سے ایک ماہ تک جاری رہیں گی۔ ان پابندیوں کے دوران ریستوراں اور بار بند رہیں گے البتہ کھانا پیک کرواکر لے جانے کی اجازت ہوگی۔ تھیئٹر اور سنیما ہال بھی بند رہیں گے۔ سوئمنگ پول اور جمز بھی بند رہیں گے۔ بڑے عوامی پروگرام اور تقریبات نہیں ہوں گی۔
سیاحوں کے لیے ہوٹلوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ عوامی تقریبات میں زیادہ سے زیادہ 10افراد شرکت کرسکیں گے، وہ بھی صرف دو خاندانوں سے تعلق رکھنے والے۔ کھیلوں کے مقابلوں میں تماشائی شریک نہیں ہوسکیں گے۔
نئے لاک ڈاؤن کے دوران تاہم اسکول کھلے رہیں گے۔ دکانیں کھلی رہیں گی۔ نرسنگ ہوم میں جانے کی اجازت ہوگی۔ کلیساؤں میں بھی لوگ جاسکیں گے۔ سرحدیں بھی کھلی رہیں گی۔
دو ہفتے کے بعد ان پابندیو ں کا جائزہ لیا جائے گا اور حسب ضرورت فیصلہ کیا جائے گا۔ لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والی چھوٹی کمپنیوں کے نومبر کی آمدنی کا 75فیصد تک حکومت دے گی۔
فرانس میں نومبرکے اواخرتک لاک ڈاون
فرانس میں کووڈ۔19کی دوسری لہر میں شدت آنے کے بعد صدر ایمانویل ماکروں نے ملک گیر سطح پر لاک ڈاون کا اعلان کردیا جونومبر کے اواخر تک نافذ رہے گا۔
صدر ماکروں نے کہا کہ ملک میں دوسری لہر سے مسائل پہلے کے مقابلے زیادہ بڑھنے کا خدشہ ہے اور یہ لہر پہلی سے زیادہ تباہ کن ہوگی۔
کورونا وائرس کے دنوں میں منفرد میوزک کنسرٹ
03:48
جمعے کے روز سے شروع ہونے والے اس لاک ڈاؤن میں لوگوں کو صرف ضروری کام کاج اور میڈیکل وجوہات کی بنا پر گھر سے باہرنکلنے کی اجازت ہوگی۔ غیر ضروری کاروبار مثلاً ریستوراں اور شراب خانے بند رہیں گے۔ تاہم اسکولوں اور فیکٹریوں کو کھولنے کی اجازت ہوگی۔ صدر ماکروں کا کہنا تھا کہ معیشت کو روکا نہیں جاسکتا۔
فرانسیسی صدر نے کہا 'یہ وائرس اب اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے جتنی تیزی سے بدترین پیش گوئیوں میں بھی اندازہ نہیں لگایا گیا تھا۔ ملک میں ہسپتالوں کے آئی سی یو میں نصف مریض کورونا وائرس کے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ پابندیاں یکم دسمبر تک لاگو ہیں اور ان کا ہر دو ہفتے بعد جائزہ لیا جائے گا۔
اشتہار
یورپی یونین کا اظہار تشویش
یورپی یونین نے کورونا کی نئی لہر سے پیدا شدہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیئر لائن نے بیلجئم سے ایک ورچوئل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا'ہمیں کورونا کی دوسری لہر پر انتہائی تشویش ہے۔‘ پیشے سے ڈاکٹر ارزولا کا کہنا تھا”اس مرتبہ ہمیں دو دشمنوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک تو کورونا وائرس اور دوسری کووڈ۔19کی وجہ سے بڑھتی ہوئی تھکان۔"
انہوں نے متنبہ کیا کہ کورونا وائرس کی پہلی ویکسین دستیاب ہونے میں ابھی مہینوں لگ سکتے ہیں۔
برطانیہ میں بھی حالات سنگین ہوگئے ہیں۔ بدھ کے روز 24701 نئے کیسز سامنے آئے اور 310 لوگوں کی موت ہوگئی، جبکہ اٹلی اور اسپین میں بھی کورونا وائرس کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
ہوائی سفر کی اب ممکنہ شکل کیا ہو گی؟
کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کو اور زندگی کے قریب ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ اسی سبب ہوائی سفر بھی ابھی تک شدید متاثر ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ مستقبل میں ہوائی سفر ممکنہ طور پر کس طرح ہو گا۔
تصویر: Aviointeriors
بجٹ ایئرلائنز
بجٹ ایئر لائنز جو دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہیں وہ خاص طور پر کورونا لاک ڈاؤن کے سبب تحفظات کا شکار ہیں۔ ایسی تمام ایئرلائنز جن کے زیادہ تر جہاز چند منٹ ہی زمین پر گزارتے تھے اور پھر مسافروں کو لے کر محو پرواز ہوجاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/Airbus
گراؤنڈ پر زیادہ وقت
کورونا لاک ڈاؤن کے بعد جب ایسے ہوائی جہاز اڑنا شروع کریں گے تو انہیں دو پروازوں کے درمیان اب زیادہ دیر تک گراؤنڈ پر رہنا پڑے گا۔ طویل فاصلوں کی دو پروازوں کے درمیان یہ لازمی ہو گا کہ اس دوران جہاز کو جراثیم کش مصنوعات سے مکمل طور پر صاف کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.A.Q. Perez
سست رفتار بورڈنگ
سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے سبب مسافروں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنا ہو گا اور اسی سبب بورڈنگ کا عمل بھی سست رہے گا اور لوگوں کو زیادہ دیر تک انتظار کرنا پڑے گا۔
تصویر: imago images/F. Sorge
سیٹوں کے درمیان فاصلہ
ابھی تک یہ بات ثابت نہیں ہوا کہ دو سیٹوں کے درمیان ایک سیٹ خالی چھوڑنے سے کورونا کے انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ جرمن ایئرلائن لفتھانزا جو یورو ونگز کی بھی مالک ہے، ابھی تک اس طرح کی بُکنگ فراہم نہیں کر رہی۔ ایک اور بجٹ ایئرلائن ایزی جیٹ البتہ ابتدائی طور پر اس سہولت کے ساتھ بُکنگ شروع کرنا چاہتی ہے کہ ہر دو مسافروں کے درمیان ایک سیٹ خالی ہو گی۔
ایوی ایشن کنسلٹنگ کمپنی ’’سمپلیفائنگ‘‘ کا خیال ہے کہ دیگر حفاظتی اقدامات کے علاوہ مسافروں کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ وہ چیک اِن سے قبل اپنا امیونٹی پاسپورٹ بھی اپ لوڈ کریں جس میں یہ درج ہو گا کہ آپ کے جسم میں اینٹی باڈیز یا کورونا کے خلاف قوت مدافعت موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Soeder
ایئرپورٹس پر طویل وقت
مسافروں کو ممکنہ طور پر اپنی پرواز سے چار گھنٹے قبل ایئرپورٹ پر پہنچنا ہو گا۔ انہیں ممکنہ طور پر ڈس انفیکٹینٹس ٹنل سے بھی گزرنا ہو گا اور چیک ان ایریا میں داخلے سے قبل ایسے اسکینرز میں سے بھی جو ان کے جسم کا درجہ حرارت نوٹ کریں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Marks
جہاز میں بھی ماسک کا استعمال
جرمنی ایئرلائن لابی BDL نے تجویز دی ہے کہ جہاز میں سوار تمام مسافروں کے لیے ناک اور منہ پر ماسک پہنا لازمی ہو سکتا ہے۔ لفتھانزا پہلے ہی اسے لازمی قرار دے چکی ہے۔ جیٹ بلو ایئرلائن بھی امریکا اور کینڈا میں دوران پرواز ماسک پہنے رکھنا لازمی قرار دے چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
سامان کی بھی پریشانی
یہ بھی ممکن ہے کہ مسافروں کے ساتھ ساتھ مسافروں کے سامان کو الٹرا وائلٹ شعاؤں کے ذریعے ڈس انفیکٹ یا جراثیم وغیرہ سے پاک کیا جائے۔ لینڈنگ کے بعد بھی کنویئر بیلٹ پر رکھے جانے سے قبل اس سامان کو دوبارہ جراثیم سے پاک کیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Stolyarova
مختلف طرح کی سیٹیں
جہازوں کی سیٹیں بنانے والے مختلف طرح کی سیٹیں متعارف کرا رہے ہیں۔ اٹلی کی ایک کمپنی نے ’گلاس سیف‘ ڈیزائن متعارف کرایا ہے جس میں مسافروں کے کندھوں سے ان کے سروں کے درمیان ایک شیشہ لگا ہو گا جو دوران پرواز مسافروں کو ایک دوسرے سے جدا رکھے گا۔
تصویر: Aviointeriors
کارگو کیبن کا ڈیزان
ایک ایشیائی کمپنی ’ہیکو‘ نے تجویز دی ہے کہ مسافر کیبن کے اندر ہی کارگو باکس بھی بنا دیے جائیں۔ ابھی تک کسی بھی ایئرلائن نے اس طرح کے انتظام کے لیے کوئی آرڈر نہیں دیا۔ اس وقت مسافر سیٹوں کی نسبت سامان کے لیے زیادہ گنجائش پیدا کرنے کی طلب بڑھ رہی ہے۔
تصویر: Haeco
فضائی میزبانوں کے لیے بھی نیا تجربہ
کیبن کریو یا فضائی میزبان بھی دوران پرواز خصوصی لباس زیب تن کریں گے اور ساتھ ہی وہ دستانے اور چہرے پر ماسک کا استعمال بھی کریں گے۔ اس کے علاوہ انہیں ہر نصف گھنٹے بعد اپنے ہاتھوں وغیرہ کو سینیٹائز کرنا ہو گا۔ بزنس اور فرسٹ کلاس کے لیے محفوظ طریقے سے سیل شدہ کھانے دستیاب ہوں گے۔