کورونا: جرمنی میں نئے کیسز میں اضافہ، پیرس میں کرفیونافذ
15 اکتوبر 2020
جرمنی میں جمعرات کے روز کورونا وائرس کے6638 نئے کیسزکے ساتھ اب تک کا ریکارڈ اضافہ درج کیا گیا۔ دوسری طرف اس وبا کی ممکنہ دوسری لہر کے مدنظر پیرس سمیت فرانس کے نوشہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
اشتہار
کورونا پر نگاہ رکھنے والے جرمن ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں جمعرات کے روز 6638 نئے کیسز سامنے آئے، جو گزشتہ مار چ کے بعد سے کسی ایک دن میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے ساتھ ہی جرمنی میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 341223 ہوگئی ہے۔
جرمنی میں 28 مارچ کو ایک دن میں سب سے زیادہ 6294 نئے کیسز درج کیے گئے تھے۔ کورونا سے مزید 33 اموات ہوئی ہیں جس کے ساتھ اس وبا سے جرمنی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 9710 ہوگئی ہے۔
حالانکہ یورپی معیار کے مطابق جرمنی میں اس وبا کا اثر نسبتاً کم رہا اور اموات کی شرح بھی کم رہی ہے، تاہم حالیہ ہفتوں کے دوران یومیہ نئے کیسز میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے انفیکشن کی سطح اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں یہ وبا کے آغا ز کے دوران بھی نہیں تھی۔
کورونا کے نئے کیسز میں تشویش ناک اضافے کی خبر ایسے وقت آئی، جب چند گھنٹے ہی قبل چانسلر انگیلا میرکل نے جرمنی کی 16وفاقی ریاستوں کے وزرائے اعظم سے ملاقات کی اور وائرس کے پھیلنے کی رفتار کو کم کرنے کے مقصد سے سخت اقدامات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
مختلف ممالک کے اسکول کورونا سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟
موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں۔ ایسے میں کورونا وائرس کے ایک اور مرتبہ پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ مختلف ممالک کے اسکولوں کے حفاظتی اقدامات پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
تھائی لینڈ: ایک باکس میں کلاس
بنکاک کے واٹ خلونگ توئی اسکول میں پڑھنے والے تقریباﹰ 250 طلبا کلاس کے دوران پلاسٹک ڈبوں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں پورا دن اپنے چہرے پر ماسک بھی پہننا پڑتا ہے۔ ہر کلاس روم کے باہر صابن اور پانی رکھا جاتا ہے۔ جب طلبا صبح اسکول پہنچتے ہیں تو ان کا جسمانی درجہ حرارت بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اسکول میں جولائی کے بعد سے انفیکشن کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
نیوزی لینڈ: کچھ طلبا کے لیے اسکول
دارالحکومت ویلنگٹن کے یہ طلبا خوش ہیں کہ وہ اب بھی اسکول جا سکتے ہیں۔ آکلینڈ میں رہنے والے طلبا اتنے خوش قسمت نہیں۔ یہ ملک تین ماہ تک وائرس سے پاک رہا لیکن 11 اگست کو ملک کے سب سے بڑے اس شہر میں چار نئے کیس سامنے آئے۔ طبی حکام نے شہر کے تمام اسکولوں اور غیر ضروری کاروبار کو بند رکھنے اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/H. Hopkins
سویڈن: کوئی خاص اقدامات نہیں
سویڈن میں طلبا اب بھی گرمیوں کی اپنی تعطیلات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ چھٹیوں سے پہلے کی تصویر ہے اور حکومتی پالیسی کو بھی عیاں کرتی ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس اسکینڈینیویا کے شہریوں نے کبھی بھی ماسک پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کاروبار، بار، ریستوران اور اسکول سب کچھ کھلا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/TT/J. Gow
جرمنی: دوری اور تنہائی
ڈورٹمنڈ کے پیٹری پرائمری اسکول میں یہ طلبا مثالی طرز عمل کی نمائش کر رہے ہیں۔ جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے تمام اسکولوں کی طرح اس اسکول کے بچوں کے لیے بھی ماسک پہننا لازمی ہیں۔ ان کا تعلیمی سال بارہ اگست سے شروع ہو چکا ہے۔ فی الحال ان اقدامات کے نتائج کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Fassbender
مغربی کنارہ: 5 ماہ بعد اسکول واپسی
یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہیبرون میں بھی اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔ اس خطے کے طلبا کے لیے بھی چہرے کے ماسک پہننا ضروری ہیں۔ کچھ اسکولوں میں دستانوں کی بھی پابندی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں اسکول مارچ کے بعد بند کر دیے گئے تھے جبکہ ہیبرون کورونا وائرس کا مرکز تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Bader
تیونس: مئی سے ماسک لازمی
تیونس میں ہائی اسکول کے طلبا کی اس کلاس نے مئی میں ماسک پہننا شروع کیے تھے۔ آئندہ ہفتوں میں اس شمالی افریقی ملک کے اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں اور تمام طلبا کے لیے ماسک ضروری ہیں۔ مارچ میں تیونس کے اسکول بند کر دیے گئے تھے اور بچوں کی آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
بھارت: لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پڑھائی
مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر میں واقع اس اسکول ان بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ یہاں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے انہیں پڑھایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Waydande
کانگو: درجہ حرارت کی جانچ کے بغیر کوئی کلاس نہیں
کانگو کے دارالحکومت کنشاسا کے متمول مضافاتی علاقے لنگوالا میں حکام طلبا میں کورونا وائرس کے انفیکشن کا خطرہ انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ریورنڈ کم اسکول میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو عمارت میں داخل ہونے سے پہلے درجہ حرارت چیک کروانا ہوتا ہے اور چہرے کے ماسک بھی لازمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Mpiana
امریکا: متاثرہ ترین ملک میں پڑھائی
کووڈ انیس کے ممکنہ کیسز کا پتہ لگانے کے لیے ہر امریکی اسکول میں روزانہ درجہ حرارت کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کی اس ملک کو فوری طور پر ضرورت بھی ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اب بھی امریکا میں ہو رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/P. C. James
برازیل: دستانے اور جپھی
ماورا سلوا (بائیں) شہر ریو ڈی جنیرو کی سب سے بڑی کچی آبادی میں واقع ایک سرکاری اسکول کی ٹیچر ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر اپنے طلبا سے ملنے کی کوشش کرتی اور انہیں ایک مرتبہ گلے لگاتی ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے پلاسٹک کے دستانے اور اپر ساتھ رکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Olivares
10 تصاویر1 | 10
انگیلا میرکل نے متنبہ کیا کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو یومیہ نئے کیسز کی تعداد 1900سے زیادہ ہوسکتی ہے۔
'پارٹی کرنے سے پرہیز کریں‘
جرمنی کے رہنماؤں نے بدھ کے روز نئے اقدامات کے تحت مئے خانوں اور ریستورانوں میں کرفیو نیز عوامی اور نجی محفلوں میں لوگوں کے جمع ہونے کی تعداد کو محدود کرنے کے حوالے سے نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ نئے اقدامات کے مطابق اب نجی محفلوں میں زیادہ سے زیادہ 10 لوگوں کے اکٹھے ہونے کی اجازت ہوگی۔
اشتہار
انگیلا میرکل نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ کورونا کے کیسز میں مزید اضافہ کو روکنے کے لیے تقریبات منعقد کرنے سے پرہیز کریں۔ انہوں نے کہا ”ہم بالخصوص نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کل اور مستقبل میں اچھی زندگی کے لیے فی الحال پارٹیاں نہ کریں۔"
جرمن ریاست باویریا کے وزیر اعظم مارکوس سود ر نے اسی میٹنگ میں متنبہ کیا کہ جرمنی میں دوسرا لاک ڈاون ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا ”ہم دوسرے لاک ڈاون کے بارے میں جتنا سوچ رہے تھے اس سے کہیں زیادہ قریب پہنچ گئے ہیں۔"
پیرس میں رات کا کرفیو
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کورونا وائرس کی دوسری لہر سے بچنے کے لیے پیرس، مارسیلے اور سات دیگر شہروں میں رات کے کرفیو کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے کووڈ۔19کے حوالے سے ہیلتھ ایمرجنسی دوبارہ بحال کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
ماکروں نے قومی ٹیلی ویزن پر خطاب کرتے ہوئے کہا”ہمیں کارروائی کرنی ہوگی۔ ہمیں وائرس کو پھیلنے سے روک لگانے کی ضرور ت ہے۔"
یہ کرفیو ہفتے کے روز سے نافذ العمل ہوجائے گا اور اگلے کم از کم چار ہفتوں تک برقرار رہے گا۔ کرفیو کے دوران رات نو بجے سے صبح کے چھ بجے کے درمیان پیرس اور آٹھ دیگر شہروں میں لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ ریستورانوں میں نہیں جاسکیں گے۔ فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ اس ضابطے کی خلاف ورزی کرنے پر 135یورو یا 159 ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
ان نئے اقدامات کا مقصد فرانس میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ بدھ کے روز محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اس وقت 9100 سے زائد کورونا کے مریض مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ 25 جون کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ٹرمپ کے صاحبزادے بھی متاثرہوئے تھے
امریکی خاتون اوّل میلانیا ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے چودہ سالہ بیٹے بیرن بھی کورونا سے متاثر ہوئے تھے مگر اب صحت یاب ہوچکے ہیں۔
میلانیا ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ”دو ہفتے قبل جب میں اور صدر ٹرمپ کورونا سے متاثر ہوئے تو اس وقت دھیان فوراً قدرتی طور پر ہمارے بیٹے کی جانب گیا۔ ہمارا خدشہ اس وقت درست ثابت ہواجب بیرن کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا تھا۔ لیکن وہ صحت مند نوجوان ہیں اس لیے خوش قسمتی سے ان میں کورونا کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔"
ج ا / ص ز (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)
یورپ میں شدید گرمی کی لہر، چہرے پر ماسک پہننا دشوار ہو گیا
موسم گرما میں گرمی پڑنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مغربی یورپ میں ہر سال گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بیلجیئم میں درجہٴ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/L. Perenyi
انگلینڈ میں ریکارڈ توڑ گرمی
برطانیہ کے مختلف علاقوں میں درجہٴ حرارت 36 ڈگری سینٹی گریڈ کے ساتھ گزشتہ بیس سالوں میں سب سے گرم ترین اگست کا مہینہ ہے۔ دوسری جانب ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین میں بتدریج اضافہ جاری ہے۔ متعدد شہری پانی کے مزے لینے کے لیے برائٹن جیسے ساحل سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance / ZUMAPRESS.com
فرانس نے ’ہیٹ ویو الرٹ‘ جاری کردیا
پیرس میں چہرے پر ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دینے کے فوراﹰ بعد ہی، فرانسیسی دارالحکومت کو شدید گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ حکومت نے گرمی سے پچنے کے لیے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ سیاحوں سے گزارش کی جارہی ہے کہ وہ سماجی دوری کا احترام کریں اور گرمی کے باوجود ماسک پہنے رہیں۔
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency
جرمن افراد کی جھیل سے محبت
گزشتہ ہفتے کے آخر میں جرمنی کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ متعدد افراد گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے سیر و تفریح کے لیے نکلے ہوئے ہیں، حکام کو خدشہ ہے کہ جھیلوں کی طرف جانے والے لوگ سماجی فاصلے کا احترام نہیں کریں گے۔ تاہم، جرمنی کی جھیلوں پر ہجوم توقع سے کچھ کم ہی دکھائی دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. von Ditfurth
بیلجیئم - سیاحوں کے بغیر
بیلجیئم کے صوبے اینٹورپ میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے بعد سے جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک نے بیلجیئم کے مختلف حصوں میں جزوی سفر ی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے ساتھ گرمی کی شدت میں اضافے کے نتیجے میں بیلجیئم کے شہری بھی ساحل سمندر کی طرف رواں دواں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Seco
جرمنی میں آگ بھڑکنے کا خطرہ
اس طرح کی گرمی اور کم یا پھر بارش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ملک کے بیشتر جنگلاتی علاقے آگ کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود، جرمن شہری باربی کیو کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ملک بھر میں طوفانوں کی بھی پیشگوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. von Ditfurth
بحیرہ بالٹک کا بدلتا موسم
موسم گرما کی اسکولوں کی تعطیلات ختم ہونے سے پہلے پہلے زیادہ تر فیملیز بحیرہ بالٹک میں ڈبکی لگانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتیں۔ لہٰذا جرمن حکام نے شلیسوگ ہولشٹائن صوبے میں بحیرہ بالٹک کے ساحل پر جانے والے افراد کو معاشرتی فاصلے کا احترام کرنے کی تلقین کی ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ گرمی میں اضافے کی وجہ سے ساحل پر سیاحوں کا رش بڑھ جائے گا۔