کورونا وائرس کی وجہ سے جرمنی میں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ اسی طرح گرجا گھروں کو بھی اس کے اثرات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ جرمنی میں پادری اب تین ملین عبادت گزاروں تک پہنچنے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔
اشتہار
کورونا وائرس کے پھیلاؤکے تناظر میں جرمنی میں جاری لاک ڈاؤن کی زندگی سے گرجا گھر بھی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ جرمنی میں چرچز اور دیگر مذہبی اداروں کو وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے تناظر میں بند کیا جا چکا ہے اور روز مرہ کی مسیحی سروسز بھی نہیں ہو رہی ہیں۔
مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں ایوانگلیلیکل ریفارمڈ چرچ سے وابستہ سیلمیٰ ڈورن کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا کام بڑھ گیا ہے، کیوں کہ اب انہیں اس چرچ کا رخ کرنے والے افراد کے ساتھ فرداً فرداً رابطہ کرنا پڑ رہا ہے۔
29 سالہ ڈورن جرمنی کی دیگر مذہبی برادری کی طرح اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہاں خواتین ایک کافی میٹنگ میں باقاعدہ سے شرکت کیا کرتیں تھیں، جس میں زیادہ تر خواتین کی عمریں 75 برس سے زائد تھیں اور اسی عمر کے افراد کورونا وائرس کے زیادہ خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
مہاجرین کے لیے چرچ میں پناہ
01:40
ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ڈورن نے کہا، ’’ہم کافی روز سے اس معاملے پر الجھن کا شکار تھے کہ باقاعدگی سے ہونے والی اس ملاقات کو کیسے منسوخ کیا جائے۔ مگر ہمیں منسوخ کرنا پڑا۔‘‘
اس کی منسوخی کے لیے ڈورن کو کالز کرنا پڑیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس ملاقات میں مدعو خواتین میں سے کچھ کے ساتھ تو ان کی گفت گو محض چند منٹ کی تھی، مگر چند ایک کےساتھ بات چیت ایک گھنٹے سے بھی زیادہ طویل وقت تک ہوتی رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کئی خواتین ایسی ہیں، جن کے لیے یہی ملاقات بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ تھی اور وہ اس ملاقات کی راہ دیکھا کرتی تھیں۔
جرمنی میں گزشتہ دو ہفتوں سے باقاعدہ چرچ سروس معطل ہے جب کہ دیگر مذہبی رہنماؤں کی طرح ڈورن کے پاس بھی چرچ آنے والوں سے رابطے کا واحد آلہ فون بچا ہے۔
مغربی جرمن شہر ڈوسلڈورف کے قریب واقع علاقے اوبرہاؤزن کے کیتھولک پادری کرسٹوف ویشمان کا کہنا ہے، "ہماری چرچ سروس معطل ہے۔ اس لیے اب دن کا زیادہ تر وقت لوگوں سے بات کرنے یا یومیہ پچیس سے تیس ای میلز کا جواب لکھنے میں خرچ ہوتا ہے۔"
جرمنی کے سب سے خوب صورت چرچ
سالہا سال قبل تعمير کيے گئے بہت سے چرچ آج بھی ديکھنے والوں کو اپنی بناوٹ اور خوب صورتی سے سکتے ميں ڈال کرتے ہيں۔ جرمنی ميں ايسے لاتعداد چرچ موجود ہیں تاہم ڈی ڈبليو نے دلکش چرچوں کی ايک فہرست ترتيب دی ہے، ملاحظہ فرمائيے۔
تصویر: picture alliance/D. Kalker
کولون کيتھيڈرل
کولون کيتھيڈرل کے دو ٹاوز کی اونچائی ايک سو پچاس ميٹر ہے۔ يہ دنيا بھر کا تيسرا سب سے اونچا چرچ ہے۔ اسے تعمير کرنے ميں پانچ سو سے سال سے زائد وقت لگا۔ گوتھک طرز تعمير کا يہ شاہکار آج بھی جرمنی کے خوب صورت ترين مقامات ميں سے ايک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
فراؤن کرشے، ڈريسڈن
ڈريسڈن ميں فراؤن کرشے يا ’چرچ آف آور ليڈی‘ دوسری عالمی جنگ ميں تباہ ہو گيا تھا اور پھر دنيا بھر سے عطيات جمع کر کے اسے دوبارہ کھڑا کيا گيا۔ قدیم يورپی طرز تعمير کے عکاس شہر ڈريسڈن ميں يہ گرجا گھر الگ ہی دکھائی ديتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/T. Eisenhuth
ہيمبرگ کا ’ميشل‘
اس چرچ کی خصوصيت يہ ہے کہ اس کے گنبد کا اوپری حصہ تانبے سے بنا ہوا ہے۔ دريائے ايلبے کے کنارے قائم يہ چرچ عرصہ دراز سے ماہی گيروں کی رہنمائی کرتا آيا ہے۔ اسے شمالی جرمنی کا سب سے خوب صورت چرچ بھی مانا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
الم منسٹر
چھوٹا شہر مگر گرجا گھر بڑا۔ 161.53 ميٹر کی اونچائی کے ساتھ الم منسٹر گرجا گھر کا ٹاور دنيا ميں سب سے اونچا ہے۔ اگر آپ اس ٹاور پر چڑھنا چاہتے ہیں تو یہ ایک مشکل کام ہے کيونکہ سات سو اڑسٹھ سيڑھياں چڑھنا ہر کسی کے بس کی بات نہيں۔ ہاں يہ ضرور ہے کہ ايسا کرنے والا ٹاور سے جو نظارہ ديکھ پائے گا، اس کی کوئی قيمت نہيں۔
تصویر: picture alliance/robertharding/M. Lange
گيڈيکٹنس کرشے، برلن
جرمن دارالحکومت برلن ميں قائم يہ چرچ دوسری عالمی جنگ ميں تباہی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا ايک حصہ آج بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ ايک حصہ دوبارہ تعمير کر ديا گيا ہے۔ برلن کے شہريوں نے اسے ’لپسٹک اينڈ پاؤڈر کمپيکٹ‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اس کی مرمت سن 1961 ميں کی گئی تھی۔
تصویر: Colourbox/V. Voennyy
آخن کيتھيڈرل
آخن کيتھيڈرل کا شمار مغربی دنيا کے اہم ترين گرجا گھروں ميں ہوتا ہے۔ جرمنی ميں يہ چرچ وہ پہلا مقام تھا، جسے سن 1978 ميں اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثے ميں شامل کيا گيا تھا۔ اپنے عروج پر اس چرچ ميں بادشاہوں کی تاج پوشی ہوا کرتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/imageBROKER
ناؤمبرگ کيتھيڈرل
ناؤمبرگ کيتھيڈرل کو رواں برس ہی اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثے ميں شامل کيا گیا ہے اور یہ ملک کا تينتاليسواں ايسا مقام ہے جو اس فہرست میں شامل ہوا ہے۔ اس چرچ کی خاص بات وہاں ریتلے پتھر سے بنے مجسمے ہیں۔
تصویر: DW/K. Schmidt
فراؤن کرشے، ميونخ
ميونخ کا فراؤن کرشے يا ’کيتھيڈل آف آور بليسڈ ليڈی‘ شہر کے مرکز ميں قائم ہے اور اسے بہت دور سے ديکھا جا سکتا ہے۔ اس چرچ کا طرز تعمير يروشلم کے ’ڈوم آف دا روک‘ سے ملتا جھلتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Chromorange/A. Gravante
نکولائی کِرشے، لائپزگ
اس چرچ کی سياسی اہميت ہے۔ اس کے باہر سن 1989 کے پر امن انقلاب کی يادگاریں نصب ہيں۔ يہ چرچ اس ليے بھی اہم ہے کيونکہ اسی مقام سے لائپزگ منڈے کے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو بعد ازاں مشرقی اور مغربی جرمنی کے الحاق کی شکل ميں اختتام پذير ہوا۔
لوئر سيکسنی کے شہر ہلڈس ہائم ميں چاليس چرچ قائم ہيں۔ انہی ميں سے ايک ’ازمپشن آف ميری‘ بارہ سو برس پرانا ہے اور رومن طرز تعمیر کا ايک شاہکار بھی ہے۔ اسے ’ہزار سالہ گلاب‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/panoramarx
باسيليکا آف برناؤ
کونسٹانس جھیل کے کنارے واقع اس چرچ کے باہر کا حصہ بظاہر سادہ ہے ليکن اندر سے يہ اپنی مثال آپ ہے۔ يہ بات بھی اہم ہے کہ اس چرچ ميں نصب گھڑيال سن 1750 سے چل رہا ہے اور يہ کام کرنے والا جرمنی کا سب سے پرانا گھڑيال ہے۔
تصویر: darqy - Fotolia.com
ايرفُرٹ کيتھيڈرل ہل
ايرفرٹ شہر کے پرانے حصے ميں موجود اس مقام کی دائيں جانب سينٹ ميريز کيتھيڈرل ہے اور بائيں جانب چرچ آف سينٹ سروس۔ يہ چرچ خوب صورتی ميں اپنی مثال آپ ہيں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سے قبل شہر کے سینٹ پانکراتیوس چرچ میں روزانہ عبادتی سروس میں موجود ہوتے تھے، جس میں دو یا تین درجن کے قریب عبادت گزار آتے تھے اور ان میں بڑی تعداد معمر افراد کی ہوا کرتی تھی، مگر جلد ہی ویشمان کو معلوم ہوا کہ شاید وہ ان میں سے کئی کو کبھی دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔
مگر وہ فون کے ذریعے اب بھی ان سب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ویشمان اور دیگر پادری ان عبادت گزاروں کو فون کرتے ہیں اور ان کے لیے دعاکرتے ہیں۔
بہت سے مقامات پر اب روزانہ چرچ کی گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اور رضاکاروں کو تہنیتی کارڈز بھیجے جاتے ہیں، جو معمر افراد کے لیے ضروریات کا سامان خرید کر ان کے گھروں میں پہنچاتے ہیں، جب کے ان معمر افراد کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے انہیں کالز بھی کی جاتی ہیں اور ان سے باتیں کر کے ان کی تنہائی بانٹی جاتی ہے۔