دنیا بھر میں مختلف حکومتوں کو کووڈ انیس کی پھیلی وبا سے شدید مشکلات درپیش ہیں۔ ایسے مشکل حالات میں بھی جمہوری اقوام کثرتِ رائے سے فیصلے کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
اشتہار
سیاسی محققین کا اتفاق ہے کہ نامساعد حالات میں جمہوریت پسند اقوام فوری فیصلے بھی پارلیمان میں کثرتِ رائے سے کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں جبکہ آمریت پسندانہ ممالک میں فردِ واحد اہم نوعیت کے فیصلے فوراً کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اب یہ بھی صحیح ہے کہ فردِ واحد کے اقدامات یقینی طور پر قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے شدید خطرات بھی پیدا کر دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Tang Ji
تیئیس جنوری کو جب چینی حکومت نے گیارہ ملین کی آبادی کے شہر وُوہان کے سارے ملک سے الگ تھلگ کر دیا تھا تو بقیہ ساری دنیا ایشیائی اقوام کو دیکھ رہی تھیں کہ ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اُس وقت ایسا محسوس نہیں کیا گیا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم سے پیدا ہونے والی کووڈ انیس کی بیماری صنعتی طور ترقی یافتہ اور بہتر معاشی حالات کی حامل اقوام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر موت کا بازار گرم کر دے گی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اس بیماری سے یورپ کی امیر ریاستوں کو چین سے بھی بدتر حالات کا سامنا ہے۔ ان امیر ملکوں میں موت، بیماری، افراتفری، بے چینی، معاشی مشکلات اور ذہنی اضطراب کا دور دورہ ہے۔
اس بیماری کے پھیلاؤ کے بعد سے جمہوریت پسندانہ روایات کے حامل ممالک میں حقوق کے راستے میں بعض شدید رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ نیو یارک سٹی، میڈرڈ اور برلن میں بنیادی حقوق کو سخت پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ان میں خاص طور پر نقل و حمل کی پابندی اہم خیال کی جا رہی ہے۔ شہریوں کو باہر نکلنے کی پابندی کے ساتھ ساتھ شہر کے اندر بھی پھرنے کی اجازت نہیں۔
تصویر: SW/S. Derks
کورونا وائرس کی وبا نے انسانوں کو اپنی پرانی عادات بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پارلیمانی سرگرمیاں محدود ہو چکی ہیں۔ بعض ممالک کے سربراہانِ حکومت بھی اس وائرس کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ ان میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اب وائرس سے متاثر ممالک چین کی جانب رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہاں اب مجموعی حالات معمول پر آتے جا رہے ہیں۔
ایسا محسوس کیا جانے لگا ہے کہ آمریت پسندانہ حکومتوں کو پیچیدہ اور مشکل حالات میں جمہوری اقوام پر فوری فیصلے لینے میں کہیں برتری تو حاصل نہیں۔ آسٹریا کی خاتون سیاسی مفکر تہمارا اہس (Thamar Ehs) کے دماغ میں ایسے ہی خیالات ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ وائرس کی وبا کے خلاف بیجنگ حکومت کی بتدریج کامیابی کے تناظر میں تہمارا اہس کا کہنا ہے کے چین کی کامیابی کے حوالہ سی کسی نے یہ سوچا ہے کی شدید لاک ڈاؤن میں وہاں کی حکومت کے تمام اقدامات کتنے شفاف تھے اور کیا سبھی حقائق منظر عام پر لائے گئے ہیں۔
تخلیقی تنہائی: کورونا وائرس میں فن کاروں کی زندگی
آئیگور لیوٹ اور آئی وائی وائی جیسے موجودہ دور کے فنکار ہوں یا انیسویں صدی کے وکٹر ہوگو جیسے نام، تنہائی عرصہ دراز سے فن و تخلیق کو جنم دیتی آئی ہے۔
نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران روسی نژاد جرمن پیانو نواز آئیگور لیوٹ آج کل ہر شام ٹویٹر پر لائیو کانسرٹ نشر کرتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش ان کے مداحوں میں خاصی مقبول بھی ہو رہی ہے۔ اپنے وقت کو کارآمد بنانے اور اپنے مداحوں سے رابطے میں رہنے کا یہ لیوٹ کا انوکھا انداز ہے۔
تصویر: Igor Levit
ادب کا ایک نیا باب
کبھی پرندوں کے چہچہانے کی آواز، کبھی صبح کی نم ہوا تو کبھی کسی درخت کے تنے پر نشانات، معروف فرانسیسی مصنفہ لیلی سلیمانی اپنی قرنطینہ ڈائری میں وہ سب لکھ ڈالتی ہیں جو ان کی نگاہ سے گزرتا ہے۔ ان کی یہ ڈائری فرانسیسی اخبار ’لی موندے‘ میں شائع ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Images/T. Camus
کام کیسے کیا؟ یہ بھی ایک آرٹ
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے قبل انتیس سالہ الیگزینڈر اسکین نے خود کو برلن کی سیکساؤر گیلری میں پچاس دنوں کے لیے قید کر لیا تھا۔ اس دوران وہ ایک پینٹنگ پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے پچاس دنوں تک ہر روز آٹھ گھنٹے تک اپنی سرگرمیوں کو ریکارڈ کیا، جن میں حتی کہ وہ کھاتے اور سوتے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہ پینٹنگ اب عالمی وبا کے بعد ہی فروخت ہو سکے گی۔
تصویر: Galerie Sexauer
نظر بندی کا ایک سال
روسی تھیٹر ڈائریکٹر کیریل سیریبرینیکوو خود ساختہ طور پر اٹھارہ ماہ کے لیے نظر بند رہے تاہم وہ اس دوران بہت کچھ کرتے رہے۔ اب وہ ایک ویڈیو میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ بندش میں وقت کو کیسے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ سیریبرینیکوو کی نظر بندی ایک سال قبل ختم ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Vyatkin
بھارت میں مراقبہ
سربین فنکارہ مارینہ ابرامووچ ہر سال کے اختتام پر بھارت چلی جاتی ہیں۔ وہ یہ وقت تنہائی میں مراقبہ کر کے گزارتی ہیں۔ مارینہ کے بقول یہ جسم اور روح کو تروتازہ رکھنے کے لیے لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Invision/V. Le Caer
حراست میں بھی ہمت نہ ہاری
چینی فنکار آئی وائی وائی کو سن 2009 میں گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اتنا تشدد کہ وہ ’سیریبرل ہیمرج‘کا شکار ہو گئے تھے۔ آئی وائی وائی نے اس وقت بھی اپنا کام جاری رکھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Sommer
آٹھ سال کے لیے نظر بند
شاعر، پینٹر اور فوٹو گرافر لو شیاباؤ کو چینی حکومت نے آٹھ سال کے لیے نظر بند رکھا۔ مگر اس نوبل انعام یافتہ فنکار نے ہمت نہ ہاری اور تخلیق جاری رکھی۔ بعد ازاں ان کے کئی فن پاروں کی نمائش برلن میں بھی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/V. Essler
دور جدید کا روسی ادب، تنہائی میں تخلیق ہوا
دور جدید کے روسی ادب کے تخلیق کار شاعر الیگزینڈر پشکن سن 1830 میں چند ماہ کے لیے خود ساختہ نظر بندی میں چلے گئے تھے۔ ان کے اس اقدام کا مقصد ہیضے کی وبا سے بچنا تھا۔ اسی دور میں پشکن نے کئی کہانیاں، اشعار اور ناول لکھے۔