کورونا خام تیل کو لے بیٹھا، ایک دن میں کئی برے عالمی ریکارڈ
20 اپریل 2020
کورونا وائرس کی عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کے سبب طلب میں بے تحاشا کمی کے باعث عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں تاریخی حد تک گر گئیں۔ بیس اپریل کو امریکی خام تیل کی فی بیرل قیمت صفر ڈالر سے بھی نیچے گر کر منفی میں چلی گئی۔
اشتہار
امریکا میں نیو یارک، برطانیہ میں لندن اور جرمنی میں برلن سے پیر بیس اپریل کی شام ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت تیل کی کھپت اور بین الاقوامی منڈیوں میں طلب اتنی کم ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی طرف سے یومیہ پیداوار میں بہت زیادہ کمی کے باوجود تاجروں کو خریدار نہیں مل رہے اور منڈیاں خام تیل سے بھری پڑی ہیں۔
کورونا سے جرمنی کو درپیش مشکلات
جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے مریض تقریباً پندرہ سو ہیں۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہو چکا ہے۔ خالی دکانیں، تمائشیوں کے بغیر فٹ بال میچز اور ثقافتی تقریبات پر پابندیاں۔ جرمنی میں روزمرہ کی زندگی کیسے گزاری جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
عطیات میں کمی
خوف و گھبراہٹ کے شکار صارفین کی وجہ سے سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں۔ جرمن شہریوں نے تیار شدہ کھانے اور ٹوئلٹ پیپرز بڑی تعداد میں خرید لیے ہیں۔ ٹافل نامی ایک امدادی تنظیم کے یوخن بروہل نے بتایا کہ اشیاء کی قلت کی وجہ سے کھانے پینے کی عطیات بھی کم ہو گئے ہیں۔ ’ٹافل‘ پندرہ لاکھ شہریوں کو مالی اور اشیاء کی صورت میں امداد فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Matzka
خالی اسٹیڈیم میں میچز
وفاقی وزیر صحت ژینس شپاہن نے ایسی تمام تقریبات کو منسوخ کرنے کا کہا ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہو۔ جرمن فٹ بال لیگ نے اعلان کیا کہ فٹ بال کلبس اور ٹیمز خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں تمائشیوں کی موجودگی میں میچ کھیلنا ہے یا نہیں۔ بدھ کے روز ایف سی کولون اور بوروسیا مؤنشن گلاڈ باخ کا میچ خالی اسٹیڈیم میں ہوا۔ اسی طرح کئی دیگر کلبس نے بھی خالی اسٹیڈیمز میں میچ کھیلے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
ثقافتی تقریبات بھی متاثر
جرمنی میں ثقافتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد تجارتی میلے اور کنسرٹس یا تو منسوخ کر دیے گئے ہیں یا انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ لائپزگ کتب میلہ اور فرینکفرٹ کا میوزک فیسٹیول متاثر ہونے والی تقریبات میں شامل ہیں۔ اسی طرح متعدد کلبس اور عجائب گھروں نے بھی اپنے دروزاے بند کر دیے ہیں۔ ساتھ ہی جرمن ٹیلی وژن اور فلم ایوارڈ کا میلہ ’’ گولڈن کیمرہ‘‘ اب مارچ کے بجائے نومبر میں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
اسکول ابھی کھلے ہیں
اٹلی میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ جرمنی میں زیادہ تر اسکول و کالج کھلے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں اساتذہ کی تنظیم کے مطابق ملک بھر میں فی الحال کورونا سے متاثرہ اسکولوں اور کنڈر گارٹنز کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/F. Hoermann
غیر ملکیوں سے نفرت
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی وجہ سے غیر ملکیوں سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چینی ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی ممالک جیسے امریکا اور اٹلی کے مقابلے میں ایشیائی ریستورانوں اور دکانوں میں گاہکوں کی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایشیائی خدوخال رکھنے والے افراد کو نفرت انگیزی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لائپزگ میں جاپانی مداحوں کے ایک گروپ کو جرمن فٹ بال لیگ بنڈس لیگا کا ایک میچ دیکھنے نہیں دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ہوائی اڈے مسافروں نہیں جہازوں سے بھر ے
جرمن قومی ایئر لائن لفتھانزا نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی پروازوں کی گنجائش میں پچاس فیصد تک کی کمی کر دی ہے۔ لفتھانزا کے ڈیڑھ سو جہاز فی الحال گراؤنڈ ہیں جبکہ مارچ کے آخر تک سات ہزار ایک سو پروازیں منسوخ کر دی جائیں گی۔ اس کمپنی نے کہا ہے کہ موسم گرما کا شیڈیول بھی متاثر ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے فلائٹس کم کی گئی ہیں۔ لوگ غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
لڑکھڑاتی کار ساز صنعت
چین میں کار ساز ی کے پلانٹس جنوری سے بند ہیں اور فوکس ویگن اور ڈائلمر جیسے جرمن ادارے اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی ایسی کئی جرمن کمپنیاں بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں، جو چین سے اضافی پرزے اور خام مال درآمد کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Meyer
سرحدی نگرانی
اٹلی اور فرانس کے بعد جرمنی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس دوران جرمنی سے آنے والی گاڑیوں کو اچانک روک کر مسافروں کا درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے۔ پولینڈ نے ٹرین سے سفر کرنے والوں کے لیے بھی اس طرح کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
8 تصاویر1 | 8
منفی قیمت کا مطلب کیا؟
اس بہت کم طلب اور بہت زیادہ رسد کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی منڈیوں میں امریکی خام تیل کی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) کہلانے والی قسم کی فی بیرل قیمت ریکارڈ حد تک کمی کے بعد پہلے دس ڈالر، پھر چار ڈالر فی بیرل اور اس کے بعد ایک ڈالر سے بھی کم تک گر گئی۔
لیکن یہ سلسلہ یہی پر ختم نہ ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکی خام تیل کی فی بیرل قیمت صفر ڈالر تک گرنے کے بعد منفی میں بھی چلی گئی۔ تکنیکی طور پر منفی قیمت کا مطلب یہ ہوتا ے کہ تیل بیچنے والا تاجر خریدار کو مفت تیل بھی دے اور پھر فی بیرل ایک خاص قیمت بھی اس لیے ادا کرے کہ خریدار اس سے یہ تیل خرید رہا ہے۔ اس کا سبب ماہرین نے یہ بتایا ہے کہ خاص طور پر امریکی خام تیل کی تمام ذخیرہ گاہیں اس وقت بالکل بھری پڑی ہیں۔
خام تیل کی قیمتوں میں صرف ایک دن میں ہی کئی منفی عالمی ریکارڈ بنا دینے والی یہ تاریخ ساز کمی اس لیے بھی انتہائی حیران کن ہے کہ ابھی جمعہ سترہ اپریل تک تو ڈبلیو ٹی آئی کا ایک بیرل ساڑھے سترہ ڈالر تک میں فروخت ہو رہا تھا۔ اس کے بعد آج پیر کو نئے ہفتے کے پہلے دن اس خام تیل کی تجارت میں یکے بعد دیگر کئی ایسے منفی عالمی ریکارڈ قائم ہو گئے جو تاریخ میں کبھی دیکھنے یا سننے میں آئے ہی نہیں تھے۔
تیل کی پیداوار میں تاریخی کمی
عالمی منڈیوں میں تیل کی انتہائی کم قیمتوں کے باعث تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے رکن بڑے ممالک نے ابھی حال ہی میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی یومیہ پیداوار میں واضح کمی کر دیں گے، تاکہ قیمتوں کو کچھ سنبھالا ملے اور انہیں مقابلتاﹰ انتہائی کم سے کچھ زیادہ فی بیرل آمدنی ہو سکے۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
اسی لیے اوپیک کی رکن ریاستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی یومیہ پیداوار میں مئی اور جون کے مہینوں میں تقریباﹰ دس ملین بیرل کی کمی کر دیں گی۔ لیکن بظاہر اوپیک کی طرف سے اس کی تاریخ کی سب سے بڑی پیداواری کمی کا فیصلہ بھی مددگار ثابت نہ ہو سکا اور خام تیل کی قیمیتں مسلسل گرتی ہی گئیں۔ ایک بیرل میں 159 لٹر خام تیل ہوتا ہے۔
بیس اپریل کی شام تک خام تیل کی برینٹ آئل قسم کی فی بیرل قیمت بھی بہت کم ہو چکی تھی۔ اوپیک ممالک کی طرف سے یہ فیصلہ بھی کیا جا چکا ہے کہ وہ مجموعی طور پر تیل کی پیداوار کی اپنی یومیہ شرح اگلے دو برسوں (مئی 2022ء) تک مقابلتاﹰ کم ہی رکھیں گے۔
کمی کا فائدہ صارفین کو کم
خام تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کا براہ راست فائدہ بین الاقوامی سطح پر صارفین کو پہنچ تو رہا ہے لیکن اس شرح سے نہیں جس شرح سے اس خام تیل کی قیمتیں گری ہیں، جسے ماہرین اقصادیات عرف عام میں 'بلیک گولڈ‘ یا 'سیاہ سونا‘ کہتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ کہ بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران ہونے والی بہت زیادہ کمی کے باوجود جرمنی میں عام پٹرول پمپوں پر سپر کہلانے والے E10 پٹرول کی اوسط قیمت 1,16 یورو فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت 1,08 یورو فی لٹر ہے، جو چند ہفتے پہلے کے مقابلے میں چند سینٹ کم تو ہے، لیکن اتنی کم نہیں جتنی وہ کی جا سکتی تھی۔
م م / ش ح (اے ایف پی، اے پی)
تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی کے اثرات
تقریباً روزانہ ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ایک برس سے زائد عرصے سے کمزور عالمی معیشت اور تیل کی زیادہ پیداوار کے باعث بے یقینی کی سی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے کچھ ممالک بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hong
خمار اتر رہا ہے
کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ناروے بھی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہو جائے گا۔ بحیرہٴ شمال کی تہہ میں موجود خام تیل نے ناروے کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تاہم تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اوسلو حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب یہ ملک تیل اور گیس کی فروخت پر بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری پر بھی انحصار بڑھائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Hagen
دوہرا نقصان
صرف یورپی یونین کی اقتصادیاں پابندیاں ہی نہیں بلکہ تیل کی کم قیمتیں بھی روس کے غصے میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ 2015ء کے دوران روسی اقتصادی ترقی میں چار فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ تنخواہوں میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روبل کی قدر میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اقتصادیات سے متعلق ایک تنظیم ’بلومبرگ‘ کے مطابق اس سال بھی روس کو کساد بازاری کا سامنا رہے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Druzhinin
مستقبل داؤ پر
نائجیریا افریقہ میں تیل کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ نئے صدر محمدو بخاری نے انتخابات سے قبل ریاستی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ انتخابی وعدہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی نذر ہو گیا۔ عالمی بینک کے مطابق اس ملک کو ایک تہائی آمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بہت سے منصوبے تعّطل کا شکار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی حقیقت
صرف نائجیریا ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ممالک اپنے مالیاتی معاملات کا حساب کتاب تیل کی اونچی قیمتوں سے کرتے ہیں۔ تاہم کم قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک کے ریاستی بجٹوں میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔ 2014ء کے وسط سے تیل کی قیمتیں تقریباً 75 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ ماہرین مستقبل قریب میں اس صورتحال کو بہتر ہوتا ہوا بھی نہیں دیکھ رہے۔
پابندیوں کے بعد
برآمدات پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ایران روزانہ تقریباً ڈیڑھ ملین بیرل تیل عالمی منڈی کو مہیا کرے گا۔ اس طرح یہ ملک خود کو بھی نقصان پہنچائے گا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی مقدار بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو گی۔ تاہم تہران حکومت اپنے دشمن سعودی عرب کو ان کم قیمتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh
اپنے ہی دام میں
سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کرنے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس طرح سعودی عرب تیل نکالنے کے شعبے میں امریکا اور اپنے حریف ملک ایران کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ تاہم اب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک اپنے ہی دام میں پھنستا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے سعودی عرب کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خسارے سے خبردار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Grimm
آخر کب تک؟
قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کی صورتحال بھی سعودی عرب سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مالیاتی ادارے جے پی مورگن کے اندازوں کے مطابق چھ خلیجی ریاستوں کے بجٹ کے خسارے کو اگر ایک ساتھ ملایا جائے تو یہ 260 ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: M. Naamani//AFP/Getty Images
انتقال اقتدار سے قبل
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لاطینی امریکی ملک وینزویلا کے پاس ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی سوشلسٹ حکومت تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے اپنے سماجی منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتی رہی۔ تاہم اب صدر نکولس مادورو نے اقتصادی شعبے میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں ملک میں سیاسی میدان میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters
کھدائی، کھدائی اور کھدائی اور اب ؟
تیل تلاش کرنے کی جدید ٹیکنالوجی نے امریکا کو تیل کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔ تاہم ان کم قیمتوں کی وجہ سے انتظامیہ بہت سے آئل ٹرمینلز کو بند کرنے پر بھی مجبور ہو چکی ہے۔ امریکا توانائی کے استعمال کے حوالے سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تیل کی انتہائی کم قیمتوں سے گاڑی چلانے والے افراد البتہ آج کل بے حد خوش ہیں۔