کورونا وائرس، خیبر پختونخوا کا طبی عملہ شدید متاثر
فریداللہ خان، پشاور
27 اپریل 2020
سہولیات کے فقدان اور سماجی دوری کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافے نے طبی عملے کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
اشتہار
خیبر پختونخوا میں ایک سینئر ڈاکٹر کی موت سمیت اس وقت متاثرہ ڈاکٹروں کی تعداد دوسو تک پہنچ گئی ہے۔ زیادہ تر متاثرہ ڈاکٹرہسپتالوں یا اپنے گھروں میں قرنطینہ ہیں۔ گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں بارہ خواتین ڈاکٹروں سمیت تیس مزید ڈاکٹروں کے ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں۔ جبکہ متاثرہ نرسز،پیرا میڈیکس اور معاون عملے کی تعداد چالیس سے زیادہ بتائی گئی ہے۔
ڈاکٹرزایسوسی ایشن ،پیرا میڈکیس اور نرسز کی تنظیمیں بار بارحکومت سے لاک ڈاؤن میں سختی کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں تاہم لاک ڈاؤن میں رمضان کی وجہ سے نرمی کر دی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بازاروں میں لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کورونا وائرس پھیلنے کا سبب بن گئی ہے۔
اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے 'سارک میڈیکل ایسوسی ایشن' اور 'کامن ویلتھ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن' کے صدر ڈاکٹر عمر ایوب سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا، "اس وقت خیبر پختونخوا میں متاثرہ ڈاکٹروں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ ان میں زیادہ تر کے ٹیسٹ پازیٹیو آنے کے بعد وہ گھروں میں ہیں۔'' ڈاکٹر عمر ایوب نے مزید بتایا کہ ایک کیس مثبت آنے پر پورا علاقہ سیل کیا جاتا ہے لیکن ہسپتال میں کئی کیسز آئے لیکن وہاں ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے دوسرے متاثر ہو رہے ہیں۔ سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو حفاظتی سامان فراہم کیا جاتا ہے وہ ڈسپوزیبل ہے لیکن دوسری بار فراہم نہیں کیا جاتا اور طبی عملے کو وہی طبی سامان دوبارہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ایوب نے مزید بتایا کہ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں شرح اموات زیادہ ہیں، لاک ڈاؤن پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، بازاروں میں رش ہے جو وائرس کے مزید پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ ٹیسٹ کرانے کی تعداد بھی کم ہے اگر درست تعداد میں ٹیسٹ کیے گئے تومتاثرہ افراد کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہوگی۔‘‘
مردان کے ایک ڈاکٹر کے خلاف محکمہ صحت کے اعلی حکام نے تاد یبی کاروائی اس لیے کی تھی کیوں کہ وہ میڈیا کے ذریعے ڈاکٹروں کو سہولیات کے فقدان کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا۔ جبکہ اسی طرح کوئٹہ میں حفاظتی سامان کا مطالبہ کرنے والے کئی ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
'ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا' کے نمائندے ڈاکٹر اسفند یار خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا،'' پشاور میں اس وقت چھیالیس ڈاکٹرز متاثر ہیں حکومت لاک ڈاؤن سخت کرے، اگر وبا اسی شرح سے بڑھتی گئی تو ہمارے پاس مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر کام کررہے ہیں لیکن سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں حکومت وعدہ تو کرتی ہے لیکن حفاظتی سامان کی فراہم میں تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔" ڈاکٹر اسفند یار عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں تک محدود رہیں۔
ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ پیرا میڈیکس کے ہزاروں اہلکار فرنٹ لائن پر کام کررہیں 'پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا' کے صوبائی صدر سید روئیداد شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت بیس ہزار پیرامیڈیکل سٹاف متاثرہ افراد کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ ان میں سے پچیس کو کورونا وائرس نے متاثر کر دیا ہے۔ کہ اگر حکومت نے پندرہ دن کے لیے مکمل لاک ڈاؤن نہ کیا تو یہ وبا خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔''
خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کی تشخیص کا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہے۔ صوبائی وزیر برائے صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت کو جلد دو ہزار ٹیسٹ یومیہ تک بڑھائیں گے۔
'پرونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن' کے صدر ڈاکٹر امیر تاج خان کا کہنا ہے،'' ہمارا صحت کا نظام انتہائی کمزور ہے، حکومت دیگر بیماریاں کنٹرول نہیں کرسکتی تو وبا پر اتنی جلدی کیسے قابو پاسکتی ہے؟ لاک ڈاؤن کو مزید سخت کیا جائے اور ہر ضلع میں ایک ہسپتال کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے مختص کیا جائے۔ ‘‘
ملک بھر میں مجموعی طور پر متاثرہ طبی عملے کی تعداد تین سو پینتالیش ہے۔ اس تعداد میں ایک سو پینسٹھ ڈاکٹر،ایک سو اکتیس پیرا میڈیکس اور اکتالیس نرسز شامل ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔