کورونا وائرس: سعودی عسکری اتحاد کا یمن میں جنگ بندی کا اعلان
9 اپریل 2020
یمن میں ہلاکت خیز کورونا وبا سے مقابلہ کرنے کے اقدامات کے تحت سعودی عرب کی قیادت والے عسکری اتحاد نے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف 9 اپریل سے دو ہفتہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
دو ہفتے کی اس بندی سے سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت اورحوثی باغیوں کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے، جو گذشتہ پانچ برس سے بھی زیادہ عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں۔
سعودی عسکری اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے بدھ کے روز یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا”ہمیں توقع ہے کہ حوثی اسے قبول کریں گے۔ ہم یمن میں کووڈ۔انیس سے جنگ کے لیے میدان تیار کررہے ہیں۔"
اس اعلان پر حوثی باغیوں یا یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
پہلی براہ راست امن مذاکرات
ترکی المالکی نے کہا کہ جنگ بندی کا اعلان اقوام متحدہ کی اپیل کے جواب میں کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی ادارے نے یمنی شہریوں کو کورونا وائرس کی وبا سے بچانے کے لیے جنگ روکنے کی اپیل کی تھی۔ مالکی نے کہا کہ اگر حوثی باغیو ں نے اس اعلان کا مثبت جواب دیا تو جنگ بندی کی مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔
سعودی عسکری اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا تھا ”یہ یمن میں ایک پائیدارجنگ بندی اور ایک جامع سیاسی حل کے حوالے سے باہم متحارب فریقین کے درمیان تجاویز، اقدامات اورمیکینزم پر تبادلہ خیال کے لیے راستہ ہموار کرسکتا ہے۔"
مارچ 2015 میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعد سے مجوزہ امن مذاکرات دونوں فریقین کے درمیان پہلی براہ راست بات چیت ہوگی۔ یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد کھانے پینے کی چیزیں اوردواوں کی قلت سے دوچار ہیں۔
اقوام متحدہ نے یمن میں جاری تصادم کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
اقو ام متحدہ کی مداخلت
اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے سعودی عسکری اتحاد کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اور یمنی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ کو فوراً روکنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔ گوٹیرس نے دنیا بھ میں جاری تصادم میں شامل فریقین سے حال ہی میں اپیل کی تھی کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے خلاف جنگ کے لیے وہ جنگ بندی کا اعلان کریں۔
انہوں نے کہا تھا”اس سے نہ صرف امن کے قیام کی کوششوں کو مدد ملے گی بلکہ کووڈ۔انیس کی وبا کا مقابلہ کرنے میں بھی ممالک کے اقدامات کو تقویت حاصل ہوگی۔
خیال رہے کہ سعودی حمایت یافتہ یمنی فورسیز اور حوثیوں کے درمیان جاری جنگ میں گذشتہ دس دنوں کے اندر کافی شدت آئی ہے۔ اس دوران 270 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی حکومت یمن میں اقو ام متحدہ کی انسانی اقدامات کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کا تعاون دے گی۔ حالانکہ یمن میں ابھی تک کووڈ۔انیس کا کوئی مصدقہ معاملہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن ملک کے خستہ حال نظام صحت کے مدنظر بین الاقوامی امدادی گروپوں کا خیال ہے کہ اگر یہاں کورونا وائرس کا حملہ ہوا تو اس کے اثرات انتہائی بھیانک ہوں گے۔
ج ا / ص ز (اے پی، ریوٹرز، اے ایف پی)
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔