جرمن پولیس کورونا وائرس کی وبا کے دوران عائد پابندیوں کی نگرانی کو مزید سخت بنانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈرون کیمروں کے استعمال پر غور کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں کووِڈ انیس بیماری کی لپیٹ میں اب تک ایک لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد لوگ آ چکے ہپں۔ کووڈ انیس وبا دو ہزار چھ سو سے زائد جرمن شہریوں کو موت کی نیند سلا چکی ہے۔ یورپی ملکوں اٹلی، اسپین اور فرانس سمیت کئی دوسرے ملکوں میں ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کے چراغ اس وبا نے گُل کر دیے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لیے جرمن حکومت نے کئی تادیبی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں خاص طور پر'سوشل ڈِسٹینسنگ‘ کو انتہائی اہم خیال کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد الگ تھلگ ہو کر رہنے اور پارٹی کرنے یا بھیڑ یا دوست احباب کی محفلوں سے اجتناب ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ جان لیوا وائرس انسانوں سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتا ہے۔
کورونا سے جرمنی کو درپیش مشکلات
جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے مریض تقریباً پندرہ سو ہیں۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہو چکا ہے۔ خالی دکانیں، تمائشیوں کے بغیر فٹ بال میچز اور ثقافتی تقریبات پر پابندیاں۔ جرمنی میں روزمرہ کی زندگی کیسے گزاری جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
عطیات میں کمی
خوف و گھبراہٹ کے شکار صارفین کی وجہ سے سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں۔ جرمن شہریوں نے تیار شدہ کھانے اور ٹوئلٹ پیپرز بڑی تعداد میں خرید لیے ہیں۔ ٹافل نامی ایک امدادی تنظیم کے یوخن بروہل نے بتایا کہ اشیاء کی قلت کی وجہ سے کھانے پینے کی عطیات بھی کم ہو گئے ہیں۔ ’ٹافل‘ پندرہ لاکھ شہریوں کو مالی اور اشیاء کی صورت میں امداد فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Matzka
خالی اسٹیڈیم میں میچز
وفاقی وزیر صحت ژینس شپاہن نے ایسی تمام تقریبات کو منسوخ کرنے کا کہا ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہو۔ جرمن فٹ بال لیگ نے اعلان کیا کہ فٹ بال کلبس اور ٹیمز خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں تمائشیوں کی موجودگی میں میچ کھیلنا ہے یا نہیں۔ بدھ کے روز ایف سی کولون اور بوروسیا مؤنشن گلاڈ باخ کا میچ خالی اسٹیڈیم میں ہوا۔ اسی طرح کئی دیگر کلبس نے بھی خالی اسٹیڈیمز میں میچ کھیلے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
ثقافتی تقریبات بھی متاثر
جرمنی میں ثقافتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد تجارتی میلے اور کنسرٹس یا تو منسوخ کر دیے گئے ہیں یا انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ لائپزگ کتب میلہ اور فرینکفرٹ کا میوزک فیسٹیول متاثر ہونے والی تقریبات میں شامل ہیں۔ اسی طرح متعدد کلبس اور عجائب گھروں نے بھی اپنے دروزاے بند کر دیے ہیں۔ ساتھ ہی جرمن ٹیلی وژن اور فلم ایوارڈ کا میلہ ’’ گولڈن کیمرہ‘‘ اب مارچ کے بجائے نومبر میں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
اسکول ابھی کھلے ہیں
اٹلی میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ جرمنی میں زیادہ تر اسکول و کالج کھلے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں اساتذہ کی تنظیم کے مطابق ملک بھر میں فی الحال کورونا سے متاثرہ اسکولوں اور کنڈر گارٹنز کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/F. Hoermann
غیر ملکیوں سے نفرت
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی وجہ سے غیر ملکیوں سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چینی ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی ممالک جیسے امریکا اور اٹلی کے مقابلے میں ایشیائی ریستورانوں اور دکانوں میں گاہکوں کی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایشیائی خدوخال رکھنے والے افراد کو نفرت انگیزی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لائپزگ میں جاپانی مداحوں کے ایک گروپ کو جرمن فٹ بال لیگ بنڈس لیگا کا ایک میچ دیکھنے نہیں دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ہوائی اڈے مسافروں نہیں جہازوں سے بھر ے
جرمن قومی ایئر لائن لفتھانزا نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی پروازوں کی گنجائش میں پچاس فیصد تک کی کمی کر دی ہے۔ لفتھانزا کے ڈیڑھ سو جہاز فی الحال گراؤنڈ ہیں جبکہ مارچ کے آخر تک سات ہزار ایک سو پروازیں منسوخ کر دی جائیں گی۔ اس کمپنی نے کہا ہے کہ موسم گرما کا شیڈیول بھی متاثر ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے فلائٹس کم کی گئی ہیں۔ لوگ غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
لڑکھڑاتی کار ساز صنعت
چین میں کار ساز ی کے پلانٹس جنوری سے بند ہیں اور فوکس ویگن اور ڈائلمر جیسے جرمن ادارے اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی ایسی کئی جرمن کمپنیاں بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں، جو چین سے اضافی پرزے اور خام مال درآمد کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Meyer
سرحدی نگرانی
اٹلی اور فرانس کے بعد جرمنی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس دوران جرمنی سے آنے والی گاڑیوں کو اچانک روک کر مسافروں کا درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے۔ پولینڈ نے ٹرین سے سفر کرنے والوں کے لیے بھی اس طرح کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
8 تصاویر1 | 8
سماجی اور انتظامی حلقوں کا خیال ہے کہ جرمنی میں عام لوگ 'سوشل ڈِسٹینسنگ‘ کو بظاہر سنجیدگی سے لیتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اس تناظر میں جرمن پولیس کی دو مختلف یونینوں نے حکومت کو رائے دی ہے کہ اس صورت حال میں لوگوں کا 'سوشل ڈِسٹینسنگ‘ کی پابندی کے عدم احترام کا انسداد ضروری ہو گیا ہے اور نگرانی کی لیے ڈرون کیمروں کے استعمال کی اجازت وقت کی ضرورت ہے۔
جرمن پولیس کی ایک یونین 'جی ڈی پی‘ کے نائب چیئر مین یورگ راڈیک کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کو سر سبز و شاداب مقامات پر جمع ہو کر موج مستی کو روکنا ہے یا عمدہ موسم کا مزہ لینے والے انسانی گروپوں کو روکنا ہے تو پھر ڈرون کیمروں سے ہی نگرانی ممکن ہے۔ راڈیک کے خیال میں نشاندہی کی صورت میں ایسا کرنے والوں کو منتشر کرنے اور فوری کارروائی ممکن ہو سکتی ہے۔
کووِڈ انیس کے مریضوں کو تلاش کرنے والی موبائل ایپ
01:22
راڈیک نے اس کا اعتراف کیا کہ ڈرون کیمروں کے استعمال پر شہری آزادیوں کا تقریباً صفایا ہو جائے گا۔ اس کا امکان ہے کہ ان ڈرون کیمروں کے ممکنہ استعمال پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکنوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔