1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معمر افراد کے لیے خصوصی کورونا فیس شیلڈ

16 اپریل 2020

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی عالمی وبا نے لوگوں کو اپنے رہن سہن تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں ایک جرمن شہری نے معمر افراد کو مہلک بیماری کووڈ انیس سے محفوظ رکھنے کے لیے فیس شیلڈ ماسک تخلیق کیا ہے۔

Dirk Thelen fertigt Schutzmasken für Altenpfleger an
تصویر: Dirk Thelen

کورونا وائرس کی عالمی وبا سے قبل جرمن شہری ڈرک تھیلن فائیو تھری ڈی پرنٹر سے بیٹ مین اور سپر مین جیسے کامک ہیروز کے ماڈل تیار کرتے تھے۔ لیکن کورونا کے بحران کے دوران چہرے کے ماسک کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے تھیلن ان مشینوں کے ذریعے چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایک سو فیس شیلڈ تیار کر رہے ہیں۔ 
پینتیس سالہ ڈرک کا تعلق جرمنی میں کورونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے علاقے ہائنسبرگ سے ہے اور ان کی اہلیہ باربرا معمر افراد کی دیکھ بھال کے ایک کیئر سینٹر میں کام کرتی ہیں۔ ڈرک تھیلن ایک ٹرانسپورٹ کمپنی سے منسلک ہے لیکن نئی قسم کے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث ان کا کام عارضی طور پر بند ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا: فیس ماسک اوردستانوں کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے؟
دوسری جانب اس وبائی صورت حال کی وجہ سے کیئر سینٹر میں چہرے کے ماسک کی شدید کمی ہوچکی ہے۔ اس لیے ڈرک نے اپنے گھر میں تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے فیس شیلڈ ماسک تیار کرنے شروع کر دیے۔ اس کیئر سینٹر میں رہائش پذیر معمر افراد کی جانب سے فیس شیلڈ کا مثبت فیڈ بیک ملنے پر ڈرک بہت مطمئن ہے۔

 

تصویر: Dirk Thelen

فیس شیلڈ کی مانگ میں اضافہ
چار ہفتے قبل ڈرک نے سات سو چہرے کے لیے حفاظتی ڈھال تیار کیے تھے۔ یہ مشینیں فیس شیلڈ کے مواد کو دو سو بیس ڈگری تک گرم کرتی ہیں اور پھر اس سے ماسک تیار کرتی ہیں۔ ایسے ایک ماسک کی تایری میں اوسطاً چالیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔ 
معمر افراد کی رہائش گاہ میں فیس شیلڈز کی فراہمی سے قبل ڈرک اور ان کی اہلیہ باربرا نے خود اس ماسک کو استعمال کرکے جائزہ لیا۔ ڈرک کے مطابق ماسک لگایا اور میں نے اس پر صفائی کا اسپرے چھڑک دیا، ہر چیز دھندلا گئی۔ اس شیلڈ کے پار کچھ بھی نہیں ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیے: فیس ماسک کی جعل سازی، پولیس کی کارروائی
ڈرک کے بنائے گئے فیس ماسک کا عام طور پر آپریشن تھیٹر میں استعمال کیے جانے والے ماسک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اس مقصد کے لیے بنائے بھی نہیں گئے۔ تاہم ڈرک کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان ماسکس کو جراثیم سے پاک رکھا جائے اور وہ پرنٹر چلاتے ہوئے دستانے اور چہرے پر ماسک پہن لیتا ہے۔

تصویر: Dirk Thelen

کارساز کمپنیوں اور نرسنگ ہوم کی دلچسپی
ڈرک نے کیئر سینٹر میں ماسک بھیجنے کے بارے میں فیس بک پر جب پوسٹ شائع کی تو وہ وائرل ہوگئی۔ ڈرک تھیلن کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کو ایک ویب سائٹ پر 
تھری ڈی پرنٹرز سے ماسک بنانے والے کے طور پر رجسٹر بھی کیا۔ بعد ازاں آٹوموٹو انڈسٹری کی ایک کمپنی نے تھیلن سے رابطہ کیا اور ملازمین کی حفاظت کے لیے ڈرک کو فیس شیلڈ کا آرڈر دے دیا۔

یہ بھی پڑھیے: ڈسپوزیبل دستانے اتنے بھی محفوظ نہیں
حال ہی میں ڈرک کو برلن کے ایک نرسنگ ہوم کا بھی آرڈر بھی ملا۔ ڈرک کے مطابق ایک خاتون نے خط لکھ کر امنی ضرورت بیان کی۔ وہ خاتون اپنے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتی تھی اور اس کے لیے اُسے ایک فیس شیلڈ یا ماسک کی ضرورت تھی تا کہ دوسرے لوگ ان سے محفوظ رہ سکیں۔

تصویر: Dirk Thelen


غیر منافع بخش کاروبار 
ڈرک کے لیے یہ ماسک یا فیس شیلڈ بنانا کوئی زیادہ مناع بخش نہیں ہے۔ وہ ایک ماسک سے محض صرف چند یورو منافع کماتا ہے، تاکہ اس سے مزید ضروری سامان کی خریداری کی جا سکے۔ ڈرک کی واحد فکر اگلا بجلی کا بل ہے۔ تھیلن کا کہنا ہے کہ پانچ تھری ڈی پرنٹرز بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اس نے اپنے بجلی فراہم کرنے والے ادارے کو رعایت یا سبسڈی یا کوئی خاص مراعت کی امید کی خواہش کرتے ہوئے خط لکھا ہے۔ 
مزید افراد کا تعاون
ڈرک کے ساتھ اب مزید اور بھی لوگ تعاون کر رہے ہیں۔ جیسے کہ اسے ایک مقامی ڈرائیونگ اسکول نے ایک تھری ڈی پرنٹر فراہم کیا ہے۔ آئندہ ہفتوں میں، ڈرک تھیلن چوبیس گھنٹے ماسک تیار کر کے اپنے ملک میں وبا کے دور میں فیس ماسک کی کمی کو پورا کرنے کے سلسلے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
ع آ / ع ح (لیزا ہینل)

کورونا سے بچاؤ کے لیے کون سا ماسک کارآمد ثابت ہوسکتا ہے؟

02:16

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں