اقوام متحدہ کے مطابق کووڈ انیس سے بچے ابھی تک کافی حد تک محفوظ رہے ہیں۔ تاہم عالمی ادارے نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس عالمی وبا کے نتیجے میں سماجی و اقتصادی سطح پر بچوں کو منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اشتہار
جمعرات سولہ اپریل کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم سے پھیلنے والی عالمی وبا سے زیادہ تر بچے بظاہر محفوظ رہے ہیں۔ شدید پریشان کن ایام میں بھی یہ کسی حد تک حوصلہ افزاء بات ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ وبا کے کم ہونے کے بعد اقوام عالم کو جن اقتصادی اور سماجی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، وہ بچوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ''سماجی اور معاشی اثرات سے وسیع پیمانے پر بچوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو سکتے ہیں، جو اور ان میں بعض ملکوں کے بچوں کی زندگیاں اقوام کی شدید اقتصادی مشکلات میں پریشان کن اثرات کا سامنا کر سکتی ہیں۔ ان متاثرین وہ کم عمر ٹین ایجرز بھی ہو سکتے ہیں، جو جسمانی اور ذہنی عوارض کا شکار ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق شدید متاثر ہونے والے بچے مختلف ملکوں کے شہروں کے نواحی علاقوں میں بسی ہوئی کچی بستیوں کے ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ مستقبل میں پیدا ہونے والے مشکل اقتصادی حالات سے متاثر ہونے والے بچوں کا تعلق مسلح تنازعات، جنگ زدہ علاقوں اور حراستی مراکز سے بھی ہو سکتا ہے۔
اس رپورٹ کو عام کرتے وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے ویڈیو لنک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کے بیشتر بچوں کے مستقبل پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبے نامکمل اور ادھورے رہ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
کورونا وائرس: بچنے کے امکانات کتنے
02:03
گوٹیرش نے عالمی رہنماؤں اور خاندانوں کے سربراہوں سے درخواست کی ہے کے وہ اس مشکل صورت حال میں بچوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کریں اور انہیں کسی بھی طرح نظرانداز نہ کریں۔
عالمی ادارے کے سربراہ نے واضح کیا کہ مستقبل میں اس عالمی وبا کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے خاندانوں کو جس گہرے سماجی دباؤ کا سامنا رہا ہے اور اس نے بچوں کو بھی متاثر کیا ہو گا اور اس کا اندازہ بھی اگلے سالوں میں ہو گا۔
سیکرٹری جنرل نے اس خطرے کا بھی اظہار کیا کہ معاشی مشکلات کے دور میں خاندانوں کی ماہانہ آمدن میں بھی کمی ممکن ہے اور اس باعث عام افراد کی زندگیوں کے معمولات میں جو منفی تبدیلیاں پیدا ہوں گی، وہ بھی بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے بہتر نہیں ہوں گی۔
گوٹیرش کے مطابق نئے کورونا وائرس کی وبا سے عالمی کساد بازاری پیدا ہونے کا امکان گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اِس کی وجہ سے بھی لاکھوں بچے بھوک، مفلسی اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر زندگیوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کساد بازاری سے گزشتہ دو تین دہائیوں کی جانے والی سماجی و معاشی ترقی کو زوال ہو سکتا ہے۔
ع ح / ع ب / ایسوی ایٹڈ پریس
’ہميں کہيں بھول نہ جانا‘
کورونا وائرس کے بحران کے باعث کئی عالمی مسائل و تنازعات آج کل عدم توجہ کا شکار ہيں۔ موسمياتی تبديلياں، کشمير ميں بندشيں، ليبيا ميں جنگ، شام ميں شورش اور افغانستان کی صورتحال سميت دنيا کو آج بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
موسمياتی تبديلياں
زمين کے درجہ حراست ميں اضافہ، بے لگام معاشی سرگرمياں، برف پگھلنے سے سطح سمندر ميں اضافہ، فضائی آلودگی، پلاسٹک کا بے دريغ استعمال، حياتياتی تنوع ميں کمی جيسے مسائل سے زمين کو خطرات لاحق ہيں۔ سائنسدان بارہا خبردار کر چکے ہيں کہ ان عوامل کو روکنے کے ليے وقت بہت محدود ہے۔ ايک مطالعے ميں يہ بات بھی سامنے آئی کہ انسانی سرگرمياں قدرتی ماحول کی تباہی کی ذمہ دار ہيں اور نئے نئے وائرسوں اور بيماريوں کی بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP/Imaginechina
ڈگمگاتی ہوئی افغان امن ڈيل
افغانستان ميں اٹھارہ سالہ جنگ کے خاتمے کے ليے حال ہی ميں امريکا اور طالبان کے مابين ڈيل طے ہوئی۔ البتہ کبھی قيديوں کے تبادلے پر اختلاف، کبھی مختلف افغان دھڑوں ميں عدم اتفاق تو کبھی وقفے وقفے سے حملوں کے باعث اس ڈيل کا مستقبل اب بھی غير واضح دکھائی ديتا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں دو ہزار کے قريب ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے جنگجو بھی سرگرم ہيں، جو امن و امان کی کسی بھی اميد کو توڑنے کے ليے سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
پاک بھارت کشيدگی اب بھی برقرار
پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت ميں کشيدگی رہی ہے۔ ان دنوں دونوں ترقی پذير ممالک کو وبا کا سامنا ہے البتہ سرحد پر صورتحال ميں اب بھی کوئی تبديلی نہيں ديکھی گئی۔ بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ مارچ ميں پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار فائرنگ کے چار سو سے زائد واقعات ريکارڈ کيے گئے۔ پاکستان نے بھی سال رواں ميں بھارت پر سات سو سے زائد مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بے يار و مددگار کشميری عوام
کشمير ميں گزشتہ برس اگست ميں کيے گئے متنازعہ بھارتی اقدامات کے بعد سے لاک ڈاؤن نافذ تھا جبکہ موجودہ وبا ميں اس پر عملدرآمد اور بھی سخت کر ديا گيا ہے۔ بندشوں کے سبب کشميری عوام کی اقتصادی کمر ويسے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔ کام کاج، کاروبار ہر چيز پچھلے قريب نو ماہ سے بند پڑی ہے۔ وبا سے کشميريوں کے مسائل ميں اور زيادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
ايران کی پہلے سے تباہ حال معيشت، مزيد گراوٹ کا شکار
سن 2015 ميں طے پانے والی جوہری ڈيل سے امريکا کی يک طرفہ عليحدگی اور پابنديوں کی بحالی کے سبب ايرانی معيشت کا پہلے ہی بيڑا غرق ہو چکا تھا کہ وبا نے اسے مزيد نقصان پہنچايا۔ ايران مشرق وسطیٰ ميں کورونا کی وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای امريکی مدد ٹھکرا چکے ہيں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر امريکا مدد کرنا ہی چاہتا ہے، تو پابندياں اٹھائے، جسے امريکی صدر مسترد کر چکے ہيں۔
تصویر: khabaronline
روہنگيا مہاجرين کا بحران، آج بھی حل طلب
بنگلہ ديشی حکام نے اپريل کے اوائل ميں کوکس بازار ميں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر ديا۔ اس ضلعے ميں لگ بھگ ايک ملين روہنگيا مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ روہنگيا مہاجرين ميانمار ميں فوج کے مبينہ تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کئی رپورٹوں ميں ميانمار ميں کيے گئے اقدامات کا موازنہ ’نسل کشی‘ سے کر چکی ہے۔ اس معاملے پر عالمی فوجداری عدالت ميں کيس بھی جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
يمنی جنگ کے متاثرين لاکھوں
اقوام متحدہ يمن کے بحران کو موجود وقت کا ’بد ترين انسانی الميہ‘ قرار دے چکی ہے۔ پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ بے گھر ہونے والوں اور قحط کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد کئی ملين ميں ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپريل کے اوائل ميں دو ہفتوں کی جنگ بندی کا اعلان کيا تاہم يہ بدحالی کے خاتمے کے ليے ناکافی ہے۔
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency
شامی مسلح تنازعہ آج بھی جاری
شام ميں سن 2011 سے چلی آ رہی خانہ جنگی اب بھی ختم نہيں ہوئی ہے۔ ان دنوں صوبہ ادلب شامی و روسی جنگی طياروں کی بمباری کی زد ميں ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں صدر بشار الاسد کی افواج پر ماضی میں ایک واقعے میں کيميائی ہتھياروں کے استعمال کا الزام بھی پھر سے لگايا گيا۔ اقوام متحدہ شامی جنگ کے تمام فريقين پر انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کا الزام عائد کر چکی ہے۔
تصویر: AFP/O. H. Kadour
يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران
سن 2015 ميں مشرق وسطیٰ و شمالی افريقہ سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں کی يورپ آمد کے تناظر ميں شروع ہونے والا بحران ايک طرح سے آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں مہاجرين ترکی، لبنان، اردن اور يورپ کے مختلف ملکوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ ان میں سب سے برا حال يونانی جزائر پر موجود کيمپوں کا ہے، جن ميں پہلے ہی سے گنجائش سے کہيں زيادہ مہاجرين آباد تھے۔ وبا سے ان افراد کو شديد خطرات لاحق ہيں۔