1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس سے بھارتی اور پاکستانی معیشت متاثر

جاوید اختر، نئی دہلی
12 مارچ 2020

بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں جہاں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، وہیں اس وبا سے بھارتی معیشت کو تقریباً تیس بلین ڈالر تک کے نقصان کا خدشہ ہے۔

Indien in Neu Delhi Coronavirus
تصویر: DW/T. Godbole

پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد گوکہ بہت کم ہے لیکن اسے بھی اقتصادی طور پر پانچ بلین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔ ایشیئن ڈیولپمنٹ بینک (اے ڈی بی)نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اثرات کے پس منظر میں جاری اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس ہلاکت خیز وبا کی وجہ سے عالمی معیشت کو 77تا 347 ارب ڈالر کے درمیان نقصان ہوسکتا ہے۔

اے ڈی بی نے یہ تجزیہ کورونا وائرس کی شدت کے مختلف ملکوں پر پڑنے والے اثرات کی بنیاد پر کیا ہے۔اس کے لیے اس نے بہتر، درمیانی اور انتہائی بدترین صورت حال کا پیمانہ مقرر کیا ہے۔اے ڈی بی کے مطابق، ’’اقتصادی نقصان کی شدت کا انحصار اس وبا کی وسعت پر منحصر ہو گا۔ حالات گوکہ ابھی غیریقینی ہیں تاہم اندازہ کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمی معیشت کو 77ارب سے 347ارب ڈالر یعنی عالمی جی ڈی پی کے 0.1 فیصد سے 0.4 فیصد کے درمیان نقصان ہوگا۔‘‘

بھارت کا 30، پاکستان کا 5بلین ڈالر کا نقصان

اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق کورونا کی وبا کے سبب بھارت کو 387ملین ڈالر سے 29.9بلین ڈالر کے درمیان نقصان ہوسکتا ہے۔ اگر حالات درمیانی نوعیت کی شدت کے رہے توبھارت کو 640ملین ڈالر کا نقصان ہوگا۔

تصویر: DW/A. G. Kakar

رپورٹ کے مطابق پاکستان گوکہ اب تک کورونا وائرس سے سب سے کم متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے تاہم اگر صورت حال بہت زیادہ خراب ہوئی تو اس کی معیشت کو پانچ ارب ڈالر تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔ بہتر صورت حال کی صورت میں بھی اسے کم ا ز کم 16.23 ملین ڈالر کا نقصان ہوگاجب کہ اگر حالت درمیانی شدت تک پہنچی تو اسے 34.2ملین ڈالر کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔اسی کے ساتھ پاکستان کی جی ڈی پی میں 1.57فیصد کی گراوٹ آئے گی جب کہ تقریباً ساڑھے نو لاکھ ملازمتیں چلی جائیں گی۔

بھارتی معیشت کا نقصان

بھارتی معیشت جو پہلے ہی گزشتہ سا ت برس کے سب سے کم ترین 4.7 فیصد کی شرح ترقی پر پہنچ گئی ہے، اسے کورونا وبا کی وجہ سے ایک نئے اور بڑے چیلنج سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ اس وبا نے بھارتی معیشت کے تقریباً تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔

بھارت میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ متعدد ملکوں بالخصوص کئی یورپی ملکوں کے شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے حکومت کے فیصلے کا سب سے زیادہ اثر ایو ی ایشن اور ٹورزم سیکٹر پر پڑے گا۔ اپریل سے جون کے درمیان چھٹیوں کے موسم میں سیاحوں کی سب سے زیادہ آمد ہوتی ہے اور ان کے لیے بالعموم فروری اور مارچ میں جہازوں کے ٹکٹوں اور ہوٹلوں کی بکنگ شروع ہوجاتی ہے لیکن اس مرتبہ ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

ڈومیسٹک ایرلائز کے کرایے بھی کافی گر گئے ہیں۔ دہلی۔ممبئی کاایک طرف کا کرایہ عام طور پر پانچ ہزار روپے ہوا کرتا تھا لیکن ایرلائنز کمپنیاں اب اتنے ہی پیسے میں ریٹرن ٹکٹ فروخت کر رہی ہیں۔ اسی طرح ممبئی سے کوچی کے درمیان کا ایک طرف کا کرایہ عام طوپر چھ سے سات ہزار وپے کے درمیان ہوتا تھا لیکن اب پانچ ہزار روپے میں ریٹرن ٹکٹ مل رہا ہے۔ ٹریول بزنس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال اور کرایوں میں اتنی کمی کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔

تصویر: Imago Images/Kyodo News

تاج محل کو بند کردیا جائے

کورونا وائرس کے خوف سے بھارت کے بیشتر اہم سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی آمد بہت کم ہوگئی ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے مقبول ترین آگرہ کے تاج محل کو بھی دیکھنے کے لیے بہت کم لوگ پہنچ رہے ہیں۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کے ساتھ گزشتہ ماہ تاج محل دیکھنے گئے تھے۔

کورونا وائرس کے پھیلنے کے خوف سے آگرہ کے میئر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تاج محل سمیت تمام تاریخی عمارتوں کو سیاحوں کے لیے اس وقت تک بند کردیا جائے جب تک کہ صورت حال قابو میں نہ آجائے۔

کورونا وائرس سے بھارت کا انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر بھی کافی متاثر ہو رہا ہے۔آئی ٹی سے وابستہ بھارتی کمپنی انفوسس کے سابق چیف فائناشیل افسر وی بالاکرشنن کا کہنا ہے، ”موجودہ صورت حال 2008کے عالمی اقتصادی اورمالیاتی کساد بازاری کی طرح ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں بتاسکتے کہ یہ صورت حال ابھی کتنے دنوں تک برقرار رہے گی۔"

بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کورونا وائرس کے اثرات کو محدود کرنے اور انڈسٹری کی مدد کے لیے جلد ہی مناسب  اقدامات کا وعدہ کیا ہے۔ 

اس دوران آج 12مارچ کو دہلی، مہاراشٹر اور لداخ میں ایک ایک اور اترپردیش میں دو نئے کیسیز کی تصدیق کے ساتھ بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی مصدقہ تعداد73ہوگئی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں