پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں کورونا وائرس کے وبا کا شکار بننے والے پہلے ڈاکٹر کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وائرس کا نشانہ بننے کے بعد گزشتہ کئی روز سے مصنوعی تنفس مہیا کیا جا رہا تھا۔
اشتہار
کراچی میں قائم اسلامک میڈیا ایسوسی ایشن (پیما) کے سربراہ ڈاکٹر عظیم الدین نے بتایا، "عمدہ فزیشن اور الخدمت ہسپتال تھرپارکر کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالقادر سومرو انڈس ہسپتال کراچی میں انتقال کر گئے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد انہیں گزشتہ کئی روز سے لائف سپورٹ مہیا کی جا رہی تھی۔"
ڈاکٹر سومرو کی ہلاکت کے بعد کوروانا وائرس کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں اس وبا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 18 ہو گئی ہے۔ صوبہ سندھ پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے دوسرا سب سے متاثرہ صوبہ ہے۔ صوبہ سندھ میں اب تک 932 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کے اعتبار سے صوبہ پنجاب سب سے آگے ہیں، جہاں 1918 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں پانچ سو، بلوچستان میں دو سو، اسلام آباد میں 83 ، گلگت بلتستان میں دو سو گیارہ اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اٹھارہ افراد میں اس وائرس کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اب تین ہزار آٹھ سو چونسٹھ بتائی جا رہی ہے۔
اس وبا کی وجہ سے پاکستان میں اب تک 54 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ ہلاکتوں میں خیبرپختونخوا اور سندھ سرفہرست میں جہاں سترہ سترہ افراد اس وبا کا نشانہ بنے جب کہ پنجاب میں پندرہ، گلگت بلتستان میں تین، بلوچستان میں ایک اور وفاق کے زیرانتظام اسلام آباد میں ایک شخص اس وبا کا نشانہ بنا۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث یہ دوسرے ڈاکٹر کی ہلاکت ہے۔ اس سے قبل گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض اس وبا کے ہاتھوں جان کھو بیٹھے تھے۔ انہیں ایک قومی ہیرو کے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں متعدد میڈیکل تنظیمیں خبردار کر رہی ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں شامل ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو ماسکس، حفاظتی لباس اور دیگر ضروری اشیاء کی قلت کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ڈاکٹروں نے حفاظتی ماسکس اور دیگر ضروری اشیاء کی عدم دستیابی کے خلاف مظاہرہ بھی کیا تھا۔ اس کے جواب میں پولیس نے کارروائی کر کے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
ع ت، ع ق (خبر رساں ادارے)
ہاتھ دُور رکھیں: کورونا وائرس کی وبا اور احتیاط
یورپ سمیت دنیا کے بے شمار خطوں میں کورونا وائرس کی بیماری کووِڈ انیس پھیل چکی ہے۔ اِس وبا سے بچاؤ کے لیے ہاتھ صاف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
دروازوں کے ہینڈل غیر محفوظ
تازہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کئی جگہوں کی سطح پر خود بخود ختم نہیں ہوتی۔ اِن میں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل اہم ہیں۔ دروازے کے ہینڈل پر یہ وائرس لگ جائے تو چار سے پانچ دِن تک زندہ رہتا ہے۔ اِن ہینڈلز کا صاف رکھنا از حد ضروری ہے۔
اپنے دفتر یا کسی کیفے پر کھانا کھاتے ہُوئے بھی احتیاط ضروری ہے۔ اگر کسی نے کھانسی کر دی تو کورونا وائرس کیفے ٹیریا کے برتنوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
کیا ٹیڈی بیئر بھی وائرس رکھ سکتا ہے؟
بظاہر ایسا ممکن نہیں کیونکہ خطرات کا اندازہ لگانے والے جرمن ادارے بی ایف آر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کھلونوں سے اِس وائرس کے پھیلنے کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ بی ایف آر کے مطابق کھلونوں کی غیر ہموار سطحیں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اِمکانی طور پر سازگار نہیں ہوتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
خطوط اور پیکٹس
امریکی تحقیقی ادارے راکی ماؤنٹین لیبارٹری کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم ڈاک سے بھیجی گئی اشیاء پر چوبیس گھنٹے تک پلاسٹک یا کارڈ بورڈ پر زندہ رہ سکتی ہے۔ وائرس کی یہ قسم اسٹین لیس اسٹیل کے برتنوں پر بہتر گھنٹے زندہ رہ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
پالتُو کُتے بھی وائرس پھیلنے کا باعث ہو سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق پالتُو جانوروں سے وائرس پھیلنے کا امکان قدرے کم ہے۔ تاہم انہوں نے ان خدشات کو نظرانداز بھی نہیں کیا ہے۔ جانوروں میں چوں کہ اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے وہ بیمار نہیں پڑتے۔ مگر اگر وہ اس وائرس سے متاثر ہوں، تو وہ ممنہ طور پر یہ وائرس ان کے پاخانے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Tarantino
پھل اور سبزیاں
جرمن ادارے بی ایف آر کے مطابق پھلوں اور سبزیوں سے کورونا وائرس کی افزائش کا اِمکان کسی حد تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اچھی طرح کھانا پکانے سے وائرس کے ختم ہونے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حدت سے وائرس ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
جمی ہوئی خوراک مفید نہیں
سارس اور میرس اقسام کے وائرس حدت پسند نہیں کرتے اور انہیں سردی میں فروغ ملتا رہا ہے۔ محقیقن کے مطابق منفی بیس ڈگری سینتی گریڈ میں بھی یہ وائرس کم از کم دو برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance /imageBROKER/J. Tack
جنگلی حیات سے خبردار
چین نے کووڈ اُنیس بیماری کے پھیلاؤ کے تناظر میں مختلف جنگلی حیات کی تجارت اور کھانے پر سخت پابندی عائد کر دی تھی جو ابھی تک برقرار ہے۔ چینی تحقیق سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ کورونا وائرس چمگادڑوں میں پیدا ہوا تھام جب کہ چمگادڑوں سے یہ کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔