کورونا وائرس: لاشیں کتنی ہوں تو ہم برداشت کر لیں گے؟ تبصرہ
26 مارچ 2020
جمود کو ابھی صرف دو ہفتے ہوئے ہیں لیکن کرنے والوں نے جمع تفریق شروع کر بھی دی ہے: انسانی ہلاکتوں کی تعداد کا مقابلہ اقتصادی ترقی سے ہے۔ سبھی دیکھنے اور سننے والے بے یقینی سے پوچھنے لگے ہیں کہ ایسا بھلا ہو کیسے سکتا ہے؟
اشتہار
ابھی بمشکل دو ہفتے ہی تو ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی تقریباﹰ جمود کا شکار ہو گئی۔ کچھ لوگ اپنے اندازے اور اعداد و شمار ہاتھوں میں لیے ابھی سے یہ حساب کتاب کرنے لگے ہیں کہ انسانی ہلاکتوں اور اقتصادی ترقی کو پہنچنے والے نقصان میں سے بڑا نقصان کون سا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ہینریک بوئہمے لکھتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی ہیں اور سننے والوں کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ سن کیا رہے ہیں اور یہ ہو کیا رہا ہے؟
جو سوال پوچھا جا رہا ہے، اس کے پیچھے سوچ ایک ہی ہے: یہ کہ ہمارے لیے زیادہ اہم کیا ہے؟ عام انسانوں میں سے ہر ایک کی صحت اور سلامتی یا کسی تباہ کن اقتصادی بحران سے تحفظ؟ یہ وائرس نظر نہ آنے والا ایسا دشمن ہے، جو بہت خطرناک بھی ہے اور جس سے لوگ بہت خائف بھی ہیں۔ اس کا نتیجہ: عام لوگوں کے باہمی رابطے منقطع، گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی، عوامی زندگی جمود کا شکار اور اقتصادی کارکردگی مفلوج۔
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: AFP/H. Neubauer
9 تصاویر1 | 9
بڑی بڑی رقوم
کسی بہت بڑے مالیاتی بحران کے پیش نظر ہوش ربا حد تک زیادہ رقوم کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ امریکا میں دو ٹریلین ڈالر کا اقتصادی پیکج، یورپی مرکزی بینک کی طرف سے ساڑھے سات سو بلین یورو اور جرمن حکومت کی طرف سے چھ سو بلین یورو مالیت کے اقتصادی پیکج کا اعلان۔ یہ جملہ رقوم ادا کون کرے گا؟
اگر یہ نئے قرضے لے کر مہیا کی جائیں گی، تو متعلقہ ممالک شدید حد تک نئے قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ اگر حکومتیں یہ وسائل بچت کر کے مہیا کریں گی، تو نقصان پھر عوام کا ہی ہو گا۔ سماجی تحفظ، صحت، تعلیم اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں سرکاری اخراجات میں بچت کی وجہ سے۔
لیکن یہ بات کسی نے نہیں سوچی ہو گی کہ برطانوی طبی ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق، دو ہزار آٹھ سے دو ہزار دس تک کے مالیاتی بحران کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد مریض صرف کینسر کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے تھے۔ تب حکومتوں نے طبی شعبے کے لیے رقوم واضح طور پر کم کر دی تھیں اور بہت سے کارکن ملازمتیں اور کوئی جاب انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے بالکل ہی بے یار و مددگار ہو گئے تھے اور ان کا علاج نہ ہو سکا تھا۔
بہت سخت الفاظ اور کڑوا سچ
اب یہ بحث شروع کی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کس حد تک رہے تو ہم اسے پھر بھی برداشت کر لیں گے؟ یہ سوال یوں پوچھا جانا چاہیے: کسی ایک انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ ایسی باتیں کرنے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہلاکتیں صرف کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہو ں گی۔ طبی شعبے پر دباؤ بہت بڑھے گا، جیسا کہ اٹلی میں بھی ہوا، تو ہسپتالوں کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو گی اور لوگ سرطان، امراض قلب اور دیگر بیماریوں سے بھی زیادہ تعداد میں مرنے لگیں گے۔
کورونا کی وبا کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کے مقابلے میں اقتصادی ترقی کا ذکر کرنے والوں کو شاید علم نہ ہو کہ لندن کے امپیریل کالج کے تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکا ہی میں اس وائرس کی وجہ سے ایک ملین سے زائد ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کو شاید یہ علم بھی نہ ہو کہ فرانس کے شہر میوہل ہاؤزن میں جو لڑکا لاشوں کو تھیلوں میں بند کر کے ٹرانسپورٹ کر رہا تھا، وہ طب کا ایک بیس سالہ طالب علم تھا۔
لاتعداد متاثرین
ہر طرف نظر آنے والا جمود اور اقتصادی تعطل ظاہر ہے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ گلی کے کونے پر چھوٹی سی دکان سے لے کر حجام کے سیلون تک، ہوٹلوں سے لے کر کیٹرنگ تک اور بڑے بڑے صنعتی پیداواری اداروں سے لے کر فضائی کمپنیوں تک، ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔ لفتھانزا کے تقریباﹰ سبھی مسافر طیارے زمین پر ہیں، فوکس ویگن کی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ کورونا وائرس یوں ہمارے معاشروں، سماجی نظاموں اور آزادیوں کو کھا جانے پر اتر آیا ہے۔
ہمیں موجودہ مرحلے میں اس وبا کے خلاف ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہم جن معاشروں میں رہتے ہیں، وہ خود پسند اور انا پرست معاشرے ہیں۔ انہی معاشروں میں کورونا وائرس نے اپنی تمام تر تباہی کے باوجود سماجی یکجہتی کے جس ننھے سے پودے کو جنم دیا ہے، اس پودے کی حفاظت لازمی ہے۔ اس سماجی یکجہتی کا تحفظ ہی کورونا کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہو سکتا ہے: انسانوں کا متحد ہونا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔ جہاں تک معیشت کا سوال ہے، تو اسے ہم دوبارہ سدھار لیں گے۔ ایسا ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔
ہینریک بوئہمے (م م / ع ا)
کورونا وائرس کے بارے میں مفروضے اور حقائق
کورونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ بہت زیادہ معلومات میں سے درست بات کون سی ہے اور کیا بات محض مفروضہ۔ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Walz
کیا نمکین پانی سے ناک صاف کرنا سود مند ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نمکین محلول ’سلائن‘ وائرس کو ختم کر کے آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔
غرارے کرنے سے بچاؤ ممکن ہے؟
کچھ ماؤتھ واش تھوڑی دیر کے لیے مائکروبز کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان سے غرارے کرنے سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم سے نہیں بچا جا سکتا۔
لہسن کھانے کا کوئی فائدہ ہے؟
انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ لہسن کھانے سے کورونا وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
پالتو جانور کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر موجود کئی نا درست معلومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلی اور کتے جیسے پالتو جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ایسے پالتو جانور اگرچہ ’ایکولی‘ اور دیگر طرح کے بیکٹیریا ضرور پھیلاتے ہیں۔ اس لیے انہیں چھونے کے بعد ہاتھ ضرور دھو لینا چاہییں۔
خط یا پارسل بھی کورونا وائرس لا سکتا ہے؟
کورونا وائرس خط اور پارسل کی سطح پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کو چین یا کسی دوسرے متاثرہ علاقے سے خط یا پارسل موصول ہوا ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ اس طرح کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کے لیے ویکسین بن چکی؟
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے علاج کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ نمونیا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین وائرس کی اس نئی قسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
جراثیم کش ادویات کورونا وائرس سے بچا سکتی ہیں؟
ایتھنول محلول اور دیگر جراثیم کش ادویات اور اسپرے سخت سطح سے کوروانا وائرس کی نئی قسم کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد پر استعمال کرنے کا قریب کوئی فائدہ نہیں۔
میل ملاپ سے گریز کریں!
اس نئے وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کھانا بہت اچھے طریقے سے پکا کر کھائیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملنے سے گریز کریں۔
ہاتھ ضرور دھوئیں!
صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے سے انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈز کے لیے دھوئیں۔ کھانستے وقت یا چھینک آنے کی صورت میں منہ کے سامنے ہاتھ رکھ لیں یا ٹیشو پیپر استعمال کریں۔ یوں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔