کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے بعد پہلی ’ماحولیاتی ہڑتال‘، تبصرہ
25 ستمبر 2020
رواں برس عالمی وبا کی وجہ سے ماحولیاتی ہڑتال کا جو سلسلہ رک گیا تھا، وہ آج دوبارہ سے شروع ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی تمسین والکر کا تبصرہ۔
اشتہار
میں ایک دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا جب مجھے ایک نوجوان لڑکی کی تصویر دکھائی دی۔ جس کے چہرے پر ایک غیریقنی سے عبارت ادھوری مسکراہٹ تھی۔ ساتھ ہی لکھا تھا، ''مستقبل روشن ہے‘‘۔ یہ ایک بڑا دعویٰ ہے۔ اس لڑکی کے چہرے ہی کو دیکھا جائے، تو خاموشی ایک بالکل مختلف سرگوشی کرتی ہے۔
یوں لگتا ہے، جیسے یہ لڑکی جانتی تھی کہ وہ ایک نادرست بات کا پوز دے رہی ہے۔ اس روشن مستقبل کے بالکل برخلاف دنیا بھر میں ماحولیاتی وجوہ کی بنا پر جنگلاتی آگ، درجہ حرارت میں اضافہ اور قطبین پر تیزی سے پگھلتی برف نظر آر ہی ہے۔ جب کہ فاسل فیول اور ہائیڈروکاربن کا استعمال اب بھی اس طرح جاری ہے، جیسے اس سے بہتر کچھ ممکن نہیں۔ اس سے مستقبل میں خشک سالی، سیلاب، سمندری طوفان اور جانے کیا کیا ہمارا منتظر ہے، جب کہ سیاست دانن موجودہ راہ ترک کرتے نظر نہیں آتے۔
یہ وہ حقیقیتیں ہیں یا ایک مکمل تباہی سے یہ وہ لاتعلقی ہے، جنہیں آج کی ماحولیاتی ہڑتال کا مرکزی موضوع بنایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی تحریک 'فرائیڈیز فار فیوچر‘ (FFF) اس ہڑتال کی منتظم ہے۔ یہ تنظیم ایک عرصے سے ان ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے ماحولیات کے موضوع پر توجہ مبذول کروانے کی کوشش میں ہے۔ نوجوانوں کی یہ تنظیم زور دے دے کر کہہ رہی ہے کہ ہمارے پاس فقط ایک سیارہ ہے۔
دو برس سے زائد عرصہ قبل سویڈش پارلیمان کے ساتھ اپنی پہلی ہڑتال میں فرائیڈیز فار فیوچر کی بانی گریٹا تھونبرگ نے اس موضوع کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اس کے ایک ہی برس بعد اسکول کی اس لڑکی کی یہ تحریک دنیاکے ایک سو پچاس ملکوں میں پھیل گئی اور ماحولیاتی اقدامات کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔
اس دوران تاہم سائبریا، آسٹریلیا اور امریکا میں غیرمعمولی درجہء حرارت ریکارڈ کیے گئے، جب کہ عالمی سطح پر بھی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح گلیشیئرز بدستور پگھلتے رہے اور افریقہ کو سمندری طوفانوں کی تباہی کا سامنا رہا۔ یورپ میں خشک سالی کی وجہ سے زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہوا، اسی طرح ایمازون کے خطے میں جنگلات کی کٹائی جاری ہے جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا سے متصل آرکٹک خطے میں تیل اور گیس نکالنے کی اجازت دے دی، ادھر جرمنی بھی کوئلے سے بجلی کی تیاری پر انحصار سن 2038 تک ختم کرتا نظر نہیں آتا۔
الوداع اے پیارے پرندوں، الوداع اے مہمانوں
ماحولیاتی اور معاشرتی تبدیلیاں کروڑوں انسانوں کی مہاجرت کا سبب بن رہی ہیں۔ ايسے ميں ماحولیاتی تغیر و قدرتی نظام کی تباہی دور دراز کے علاقوں سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی آمد میں بھی کمی کا سبب بن رہی ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
عقابی اُلو (Eagle Owl)
بھورے رنگ کے اس اُلو کا شمار اپنی طرح کے جانوروں کی چند بڑی اقسام میں ہوتا ہے۔ یہ اُلو یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں پایا جاتا ہے اور یہ بڑے جانوروں کا شکار بھی کرتا ہے۔ اس کے پر دو سے تین فٹ لمبے ہوتے ہیں اور اس کی اوسط عمر تقریباﹰ بیس سال ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نیلی دم والا مگس خور (Blue-tailed Bee Eater)
بہت طویل مسافتوں تک نقل مکانی کرنے والے اس پرندے کا تعلق شمال مشرقی ایشیا سے ہے۔ اس کی خوراک عموماﹰ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں۔ سال کے مختلف موسموں میں مسلسل ہجرت کرتے رہنے کے لیے مشہور یہ پرندہ زیادہ تر جھیلوں کے آس پاس پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کے پھیلاؤ، غیر منظم سیاحت اور انسانوں کے ہاتھوں پرندوں کے مخصوص ماحولیاتی نظاموں کو جو نقصان پہنچا ہے، اس نے اس مگس خور کے طرز زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
لکیروں والے سر والی مرغابی (Bar-Headed Goose)
یہ دلکش پرندہ گرمیوں میں وسطی ایشیا جبکہ سردیوں میں جنوبی ایشیا کی جانب ہجرت کرتا ہے۔ بہت زیادہ اونچائی پر پرواز کرنے والے پرندوں میں اس کا شمار تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ یہ اکثر انتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ اور ہمالیہ کے پہاڑوں کے اوپر فضا میں اڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ہجرت کے دوران یہ پرندہ ایک دن میں اوسطاﹰ ایک ہزار میل تک کا سفر طے کرتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سرمئی سر والا واربلر (Grey Hooded Warbler)
اس بہت نازک سے اور انتہائی خوبصورت پرندے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ عموماﹰ جنوبی پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ننھا منا ہونے کے باعث اس پرندے کا وزن انتہائی کم ہوتا ہے۔ اس کا جسم تقریباﹰ دس سینٹی میٹر تک لمبا ہوتا ہے اور یہ خوراک میں مختلف طرح کے کیڑے مکوڑے شوق سے کھاتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
ایک منفرد شاہین (Pallas Fish Eagle)
اس شکاری پرندے کا تعلق وسطی اور جنوبی ایشیا سے ہے۔ اس کا شمار ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار پرندوں میں ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت اور کم ہوتے ہوئے سرسبز علاقوں اور آبی خطوں کے سبب ایسے پرندوں کے ناپید ہو جانے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ میٹھے پانی کی مچھلی اس شکاری پرندے کی محبوب خوراک ہے اور اس کا وزن تقریباﹰ چھ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
نارنجی دھاری والا بُش روبن (Orange Flanked Bush Robin)
بہت حسین رنگوں سے آراستہ یہ ننھا منا سا پرندہ ہجرت کرتا ہوا پورے کے پورے براعظم پار کر جاتا ہے۔ یہ سردیاں ایشیا میں گزارتا ہے اور گرمیوں کی آمد پر یورپ کا رخ کر لیتا ہے۔ ایسے انتہائی کم جسمانی وزن والے کروڑوں پرندے ہر سال ایک محدود عرصے کے لیے پاکستانی جھیلوں اور ڈیموں کے کنارے یا پھر ان گیلے سرسبز خطوں میں قیام کرتے ہیں، جنہیں ماحولیاتی ماہرین ’ویٹ لینڈز‘ یا گیلی زمینوں کا نام دیتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
ہیرون (Heron)
لمبی چونچ والا یہ پرندہ تقریباﹰ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، خاص کر آبی علاقوں کے قرب و جوار میں۔ مچھلی اور آبی کیڑے اس کی مرغوب ترین خوراک ہوتے ہیں۔ ایسے پرندے گروہوں کی شکل میں رہتے اور غول بن کر اڑنا پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی ہیرون کی اوسط عمر بیس سال کے قریب ہوتی ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فیزنٹ کی دم والا جاکانا (Pheasant-tailed Jacana)
لمبی ٹانگوں اور چوڑے پنجوں والا، بھورے اور سفید رنگوں والا یہ پرندہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے گھنے جنگلوں کے درمیان ہجرت کرتا ہے۔ یہ جاکانا کی واحد قسم ہے، جو بہت طویل فاصلے طے کر سکتی ہے۔ نر پرندہ مادہ سے زیادہ لمبے جسم کا حامل ہوتا ہے۔ پرندوں کی بین الاقوامی اور بین البراعظمی ہجرت پر منفی اثرات کی بڑی وجوہات میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلات کا خاتمہ اور آبی علاقوں کا کم ہوتا جانا شامل ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
بگلا (Stork)
یہ طویل القامت، لمبی ٹانگوں اور لمبی چونچ والا پرندہ عموماﹰ جھیلوں کے کنارے پایا جاتا ہے۔ اس کی یہ قسم زیادہ تر شمالی امریکا اور آسڑیلیا میں دیکھنے میں آتی ہے۔ اس بگلے کی کئی اقسام ایشیا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی خوراک زیادہ تر مچھلیاں اور چھوٹے حشرات ہوتے ہیں۔
تصویر: Bilal Qazi
سیٹیاں بجاتی بھوری بطخ (Lesser Whistling Duck)
اس خوش آواز پرندے کو انڈین وِسلنگ ڈک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پرندہ جنوبی ایشیائی خطوں میں پایا جاتا ہے اور اپنے گھونسلے اکثر درختوں پر بناتا ہے۔ اس کی غذا میں زیادہ تر گھاس پھوس اور چھوٹے حشرات شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندہ بیک وقت بارہ انڈے دیتا ہے۔ اس کے چہچہانے کی آواز ایسی ہوتی ہے، جیسے کوئی بڑی سریلی سیٹی بجا ر ہا ہو۔
تصویر: Bilal Qazi
بڑا فلیمنگو (Greater Flamingo)
گلابی رنگ والا لمبے قد کا یہ دلکش پرندہ گریٹر فلیمنگو افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنونی یورپ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی اوسط عمر تیس سے چالیس سال تک ہوتی ہے۔ اس کی خوراک مچھلی اور دریائی کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں اور اس کا وزن چار سے پانچ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
سینڈ پائپر (Sand piper)
بھورے رنگ کے اس پرندے کی دنیا بھر میں کئی قسمیں پائی جاتی ہیں اور یہ پرندہ کرہ ارض کے تقریباﹰ سبھی خطوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی پسندیدہ خوراک مچھلی ہے اور یہ اکثر عمر بھر اپنے ایک ہی ساتھی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ زمین پر یا کسی بھی کھلی جگہ پر اپنا گھونسلہ بناتا ہے اور بیک وقت تین سے چار تک انڈے دیتا ہے۔
تصویر: Bilal Qazi
فوٹوگرافر بلال قاضی
گزشتہ آٹھ برسوں سے پاکستان بھر میں پیشہ وارانہ بنیادوں پر جنگلی حیات کی فوٹوگرافی کرنے والے بلال قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں کل تقریباﹰ 780 اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں اور وہ اب تک تین سو سے زائد انواع کے پرندوں کی تصاویر بنا چکے ہیں۔ ان کے بقول موسمیاتی تبدیلیوں اور غیر قانونی شکار کے باعث بھی نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے پرندوں کی تعداد اب پندرہ سے تیس فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
وبا کے دنوں گو کہ یہ مظاہرے فقط آن لائن ہو پائے، تاہم فرائیڈیز فار فیوچر تحریک مسلسل عالمی رہنماؤں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے انسداد کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے حوالے سے دباؤ میں مصروف رہی ہے۔