کورونا وائرس کا بحران اور امريکی ڈاکٹروں کی بے بسی
27 مارچ 2020
چھبیس مارچ کو کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ميں ریکارڈ اضافے کے ساتھ ہی بين الاقوامی ميڈيا سے امريکا کے مختلف ہسپتالوں ميں طبی عملے اور ڈاکٹروں کے ليے سرجيکل ماسک سمیت حفاظتی اشياء کی شديد قلت کی اطلاعات بھی ملیں۔
اشتہار
دنیا بھر میں اب تک تقریباﹰ ساڑھے پانچ لاکھ افراد نئے کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہيں۔ ترقی پذير اور غريب ممالک کے ساتھ ساتھ امیر ریاستوں میں بھی صحت عامہ کے نظاموں پر اس وقت غير معمولی دباؤ ہے۔ جن ممالک ميں لاک ڈاؤن ہے، وہاں زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
غير معمولی اقدامات
امريکا کو اس وقت نئے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے علاج، بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی اور کئی ریاستوں ميں لاک ڈاؤن کے سبب ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات جيسے کئی بڑے چيلنجز کا سامنا ہے۔
میساچوسٹس اور نیو یارک کے متعدد میڈیکل اسکولوں نے اس ہفتے اعلان کیا کہ وہ اپنے چوتھے سال کے طلبا و طالبات کی پيشگی گریجویشن کر کے انہيں ہسپتالوں میں دیکھ بھال کے نگران فرنٹ لائن عملے کے طور پر تعينات کر رہے ہيں۔ طبی کارکنوں کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اور اس وقت سرجری اور ڈینٹل میڈیسن سے لے کر ميڈیکل کے ديگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے سينيئر اور جونيئر تمام ڈاکٹروں کو ہسپتالوں کے ایمرجنسی شعبوں ميں تعينات کیا جا رہا ہے۔
نیو یارک یونیورسٹی کے بعد ٹفٹس یونیورسٹی ، بوسٹن یونیورسٹی اور میساچوسٹس یونیورسٹی کے میڈیکل اسکولوں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ریاست میساچوسٹس کی جانب سے میڈیکل ورک فورس کو بڑھانے میں مدد کے ليے درخواست کے بعد مئی کے بجاۓ اپریل ميں ہی گریجویشن کا منصوبہ بنایا ہے۔ اخبار نيو يارک ٹائمز کے مطابق ہارورڈ میڈیکل اسکول نے کہا ہے کہ وہ ایسے ہی ممکنہ اقدام پر 'سرگرمی سے غور کر رہا ہے‘۔
میساچوسٹس میں ریاست ابتدائی فارغ التحصیل افراد کے ليے 90 دن تک کے لیے عارضی لائسنس فراہم کرے گی، جن سے کلینیکل شعبوں اور فرائض کی انجام دہی میں خود بخود داخلے کی اجازت ہو گی۔ اس اقدام سے میساچوسٹس میں لگ بھگ 700 میڈیکل طلبہ معمول سے کم از کم آٹھ ہفتے قبل ہی مریضوں کی دیکھ بھال کے ليے خود کو پیش کر سکيں گے۔
ڈاکٹروں کی حالت زار کی عکاسی سوشل ميڈيا پر
امريکا کے ہسپتالوں ميں اس وقت بغير کسی وقفے کے مسلسل موت اور زندگی کی کشمکش کے درميان کورونا وائرس کے مريضوں کی مدد کرنے والے ڈاکٹر فيس بک کے ذريعے بھی اپنی مشکلات اور مريضوں کی بے بسی بیان کر رہے ہيں۔
کورونا وائرس سے بچنے کے ليے احتیاطی تدابیر
دنیا کے کئی ممالک میں کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اب ماسک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے ميں کئی اور طریقے بھی موثر ثابت ہو سکتے ہیں، جن میں سے چند ایک ان تصاویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Stringer
کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے
یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ماسک وائرل انفیکشن کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں يا نہيں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ناک پر چڑھانے سے قبل ماسک ميں پہلے سے بھی جراثیم پائے جاتے ہيں۔ ماسک کا ايک اہم فائدہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی ناک اور منہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بیماری کی صورت میں یہ ماسک دوسرے افراد کو آپ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/Stringer
جراثیم دور کرنے والے سیال مادے کا استعمال
اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی ہدايات میں عالمی ادارہٴ صحت نے چہرے کے ماسک کا ذکر نہیں کیا لیکن ان ہدايات میں سب سے اہم ہاتھوں کو صاف رکھنا ہے۔ اس کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے جراثم کش سیال مادے کے استعمال کو اہم قرار دیا ہے۔ یہ ہسپتالوں میں داخلے کے مقام پر اکثر پايا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Pilick
صابن اور پانی استعمال کریں
ہاتھ صاف رکھنے کا سب سے آسان طریقہ صابن سے ہاتھ دھونا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس انداز میں بڑی توجہ سے ہاتھ دھوئے جائيں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Klose
کھانسی یا چھینک، ذرا احتیاط سے
ڈاکٹروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ کھانسی کرتے وقت اور چھینک مارتے ہوئے اپنے ہاتھ ناک اور منہ پر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس موقع پر ٹِشُو پیپر بھی منہ پر رکھنا بہتر ہے۔ بعد میں اس ٹِشُو پیپر کو پھینک کر ہاتھ دھو لینے چاہییں۔ نزلہ زکام کی صورت میں اپنے کپڑے معمول سے زیادہ دھونا بھی بہتر ہوتا ہے۔ ڈرائی کلین کروا لیں تو بہت ہی اچھا ہے۔
تصویر: Fotolia/Brenda Carson
دور رہنا بھی بہتر ہے
ایک اور احتیاط یہ ہے کہ سارا دن دفتر میں کام مت کریں۔ بخار کی صورت میں لوگوں سے زیادہ میل جول درست نہیں اور اس حالت میں رابطے محدود کرنا بہتر ہے۔ بیماری میں خود سے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مناسب ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
بیمار ہیں تو سیر مت کریں، ڈاکٹر کے پاس جائیں
بخار، کھانسی یا سانس لینے میں دشواری ہے تو طبی نگہداشت ضروری ہے۔ بھیڑ والے مقامات سے گریز کریں تاکہ بیماری دوسرے لوگوں ميں منتقل نہ ہو۔ ڈاکٹر سے رجوع کر کے اُس کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Mikheyev
بازار میں مرغیوں یا دوسرے جانوروں کو مت چھوئیں
کورونا وائرس کے حوالے سے یہ بھی ہدایت جاری کی جاتی ہيں کہ مارکیٹ یا بازار میں زندہ جانوروں کو چھونے سے اجتناب کریں۔ اس میں وہ پنجرے بھی شامل ہیں جن میں مرغیوں یا دوسرے جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW
گوشت پوری طرح پکائیں
گوشت کو اچھی طرح پکائیں۔ کم پکے ہوئے یا کچا گوشت کھانے سے گریز ضروری ہے۔ جانوروں کے اندرونی اعضاء کا بھی استعمال احتیاط سے کریں۔ اس میں بغیر گرم کیا ہوا دودھ بھی شامل ہے۔ بتائی گئی احتیاط بہت ہی ضروری ہیں اور ان پر عمل کرنے سے بیماری کو دور رکھا جا سکتا ہے۔ صحت مند رہیں اور پرمسرت زندگی گزاریں۔
تصویر: picture-alliance/Ch. Mohr
8 تصاویر1 | 8
نیو روک ہسپتال کے ايک ڈاکٹر )انٹرنل ميڈيسن ريذيڈنٹ( مارک ايوب نے اپنی ايک فيس بک پوسٹ ميں لکھا، ''میں ابتدائی طور پر COVID-19 کے بارے ميں شاکی تھا۔ آج ميں خوفزدہ ہوں۔ دس دن پہلے ہمارے ہسپتال میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد صفر تھی۔ آج ہمارے پاس سینکڑوں ہیں۔ ہم ایک ہاری جا چکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سرکاری طور پر ہمارے اس ہسپتال میں 13معالجین وائرس کا شکار ہیں ۔غیر سرکاری طور پر اس سے کہيں زیادہ ۔ ہم کیوں کام جاری رکھے ہوئے ہیں؟ کیونکہ اگر ہم نہیں کریں گے، تو کون کرے گا؟ ہم جسمانی طور پر بیمار ہیں ، لیکن کوئی بھی ہماری جگہ نہیں لے سکتا۔ ہم اپنے ساتھیوں سے اپنے جذبات اور کھانسی چھپاتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہماری ساری توانائی صرف ہمارے مریضوں پر مرکوز ہے۔‘‘
کورونا وائرس کے بارے میں مفروضے اور حقائق
کورونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ بہت زیادہ معلومات میں سے درست بات کون سی ہے اور کیا بات محض مفروضہ۔ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Walz
کیا نمکین پانی سے ناک صاف کرنا سود مند ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نمکین محلول ’سلائن‘ وائرس کو ختم کر کے آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔
غرارے کرنے سے بچاؤ ممکن ہے؟
کچھ ماؤتھ واش تھوڑی دیر کے لیے مائکروبز کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان سے غرارے کرنے سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم سے نہیں بچا جا سکتا۔
لہسن کھانے کا کوئی فائدہ ہے؟
انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ لہسن کھانے سے کورونا وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
پالتو جانور کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر موجود کئی نا درست معلومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلی اور کتے جیسے پالتو جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ایسے پالتو جانور اگرچہ ’ایکولی‘ اور دیگر طرح کے بیکٹیریا ضرور پھیلاتے ہیں۔ اس لیے انہیں چھونے کے بعد ہاتھ ضرور دھو لینا چاہییں۔
خط یا پارسل بھی کورونا وائرس لا سکتا ہے؟
کورونا وائرس خط اور پارسل کی سطح پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کو چین یا کسی دوسرے متاثرہ علاقے سے خط یا پارسل موصول ہوا ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ اس طرح کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کے لیے ویکسین بن چکی؟
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے علاج کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ نمونیا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین وائرس کی اس نئی قسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
جراثیم کش ادویات کورونا وائرس سے بچا سکتی ہیں؟
ایتھنول محلول اور دیگر جراثیم کش ادویات اور اسپرے سخت سطح سے کوروانا وائرس کی نئی قسم کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد پر استعمال کرنے کا قریب کوئی فائدہ نہیں۔
میل ملاپ سے گریز کریں!
اس نئے وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کھانا بہت اچھے طریقے سے پکا کر کھائیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملنے سے گریز کریں۔
ہاتھ ضرور دھوئیں!
صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے سے انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈز کے لیے دھوئیں۔ کھانستے وقت یا چھینک آنے کی صورت میں منہ کے سامنے ہاتھ رکھ لیں یا ٹیشو پیپر استعمال کریں۔ یوں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
9 تصاویر1 | 9
مارک ایوب نے لکھا، ''کچھ دن پہلے ہم مریض کو بلو بیگ سے ماسک کرتے تھے ، لیکن نئے کووڈ پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ ہمیں وائرل ذرات کی ایروسولائزیشن سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ تو میں اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں: 'کیا میں اپنی زندگی کی حفاظت کر سکوں گا؟‘ ايک اکتاليس سالہ مريض کی زندگی کو بچا نے کا فیصلہ کرتے ہوۓ میں نے اپنی زندگی کا خطرہ مول ليا اور بلو بیگ سے اسے ماسک کر دیا۔ ہم نے اپنے ہسپتال میں متعدد یونٹ بند کر دیے ہیں اور انہیں COVID انیس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ہم ان حصوں کو 'خفیہ غار‘ کہتے ہیں۔ ہر روز آئی سی یو میں کام کرتے ہوئے ہمیں کورونا کے ریضوں کے اوسطاﹰ 12 نئے کيسز نمٹانا ہوتے ہیں۔ انہیں ایک تاریک دالان سے نکال کر آئی سی یو تک پہنچانا ہوتا ہے۔ میں اپنا وہی ماسک لگاۓ ہوئے ہوں، جو میں کئی دنوں سے استعمال کر رہا ہوں۔ ہم اپنے گھٹتے ہوئے وسائل کو اخلاقی اور مؤثر طریقے سے کس طرح استعمال کريں؟ اس ہسپتال میں پہلے ہی وینٹیلیٹر ختم ہوچکے ہیں۔ ہم ہر کسی کی ویسی نگہداشت نہیں کرسکتے، جس کو کوئی مستحق ہوتا ہے۔ ایک دن میں متعدد بار فيصلے کی کٹھن گھڑی آتی ہے، جس ميں ہميں 40 سالہ مریض اور 80 سالہ مریض کے درمیان زندگی بچانے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ہم یہاں زندگی اور موت کے فیصلے کرنے پر اس ليے مجبور ہیں کیونکہ ہمارے بازار اور حکومتیں ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘
اسی قسم کے جذبات کا اظہار نارتھ کيرولائنا اور واشنگٹن ڈی سی کے ہسپتالوں ميں کام کرنے والے دیگر ڈاکٹروں نے بھی اپنے اپنے فيس بک پيج پر کیا ہے اور لکھا ہے کہ امريکی صدر ٹرمپ کو ملکی معیشت کو بچانے کی کوششوں کے بجائے انسانی جانیں بـچانے کے ليے ہر ممکنہ اقدامات کرنا چاہييں۔
کشور مصطفیٰ، م م
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔