1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس کا علاج کیا ہے؟

عاطف توقیر
14 مئی 2020

کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس شاید دنیا سے کبھی ختم نہ کیا جا سکے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ پھر اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟

الیکٹرون خوردبین سے لی گئی اس تصویر میں نیا کورونا وائرس نیلی گیندوں کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہےتصویر: AFP

زکام کا وائرس ایک مثال

کورونا وائرس کی نوعیت اور اثرات نہایت مختلف ہیں جو زکام کے وائرس سے کوئی تقابل نہیں رکھتے، مگر اس وائرس کے پھیلاؤ کو کسی حد تک سمجھنے کے لیے زکام کا وائرس قدرے مددگار ہو سکتا ہے۔ زکام کے وائرس کا پھیلاؤ کب اور کہاں سے ہوا، اس سے متعلق حتمی علم تو کسی کو نہیں، مگر محققین کہتے ہیں کہ غالباﹰ انفلوئنزا وائرس سولہویں صدی میں ایشیا میں سامنے آیا اور پھر افریقہ اور یورپ میں پھیلتا چلا گیا۔

انفلوئنزا وائرس کی چار اقسام ہیں، جن میں سے ٹائپ اے، بی اور سی انسانوں کو متاثر کرتے ہیں جب کہ ٹائپ چار جانوروں کو لاحق ہوتا ہے۔

کورونا وائرس، مختلف افراد پر مختلف اثر کیوں؟

کیا سگریٹ نوشی نئے کورونا وائرس کے خلاف مددگار ہے؟

انفلوئنزا کی ٹائپ اے کے وائرسز ایچ ون این ون، ایچ ٹو این ٹو، ایچ تھری این ٹو، ایچ فائیو این ون سمیت متعدد دیگر ہیں۔ ٹائپ اے انفلوئنزا کی قدرتی آماج گاہ پرندے ہوتے ہیں، اور یہ وائرس عموماﹰ پولٹری کے ذریعے انسانون میں منتقل ہوتا ہے اور وبائی شکل اختیار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ٹائپ بی انفلوئنزا وائرس کی صرف ایک اسپیشیز ہے اور یہ وائرس عموماﹰ فقط انسانوں پر ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ اب تک ٹائپ بی انفلوئنزا انسانوں کے علاوہ صرف سیلز اور فیریٹس میں ملا ہے۔ انفلوئنزا سی ٹائپ کی بھی صرف ایک اسیپیشز ہے اور گو کہ یہ بھی مختلف مقامات پر مقامی سطح پر وبائی شکل اختیار کرتا رہا ہے، تاہم ٹائپ اے اور ٹائپ بی انفلوئنزا کے پھیلاؤ کے مقابلے میں ایسا خاصا نادر ہی ہوتا ہے۔ ٹائپ ڈی انفلوئنزا کی بھی صرف ایک اسپیشیز ہے تاہم یہ فقط گائے اور سوروں کو متاثرہ کرتا ہے۔ گو کہ اس وائرس میں بھی انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہے، تاہم اب تک ایسا ہوا نہیں ہے۔

زکام کے وائرس میں انتہائی تیز رفتار میوٹیشن جاری ہے اور اسی وجہ سے اس وائرس سے مکمل امیونٹی ممکن نہیں، یعنی یہ وائرس آپ کو بیمار کرے گا اور پھر کچھ عرصے بعد آپ دوبارہ اس وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

چینی شہر ووہان ہی میں برڈ فلو کے بھی کیسز سامنے آئے ہیںتصویر: Getty Images/China Photos

اور کورونا وائرس؟

کورونا وائرس سے متعلق اب تک کم معلومات دستیاب ہیں اس لیے اس بابت کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی کہ آیا اس وائرس سے لڑ کر بچ نکلنے والا کوئی شخص دوبارہ اس وائرس کا شکار ہو سکتا ہے یا نہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے کورونا وائرس میں میوٹیشن کا عمل نہایت تیز رفتار ہے اور عین ممکن ہے کہ اس وائرس سے دوچار افراد کو نئے کورونا وائرس سے مکمل امیونٹی حاصل نہ ہو پائے۔

کورونا وائرس سے متعلق مختلف ممکنہ حل

کورونا وائرس سے متعلق مختلف طرز کی حکمت عملی پر غور کیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے ویکسین کی فوری تیاری کارگر ہو گی، تو بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ ویکسین کے ذریعے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکا نہیں جا سکے گا۔ اس وقت متاثرہ افراد کے خون سے پلازمہ نکال کر نئے مریضوں میں لگانے اور ہیرڈ امیونٹی جیسے راستے بھی زیربحث ہیں۔

اسپین میں لاک ڈاؤن میں نرمی، عوام خوش مگر ڈاکٹر پریشان

03:28

This browser does not support the video element.

ہرڈ امیونٹی علاج ہے؟

طبی اصطلاح میں ہیرڈ امیونٹی کا مطلب ہے کہ کسی وبا کو پھیلنے دیا جائے اور لوگ اس بیماری کو اپنے مدافعتی نظام سے شکست دے دیں۔ ایسے وائرس جو کسی فرد کو فقط ایک بار متاثر کرتے ہوں، ایسے وائرس کے خلاف یہ ایک موثر طریقہ ہو سکتا ہے۔ اس طریقے کو منفی پہلو یہ ہوتا ہے کہ بہت سے افراد جن کا مدافعتی نظام کم زور ہو یا جو وائرس کو شکست دینے میں ناکام ہو جائیں، وہ اس عمل میں مارے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس سے متعلق اس طریقہ کار پر بنیادی سوال یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ اگر کورونا وائرس صحت یاب ہونے والے کسی مریض پر دوبارہ حملہ آور ہونے کی صلاحیت کا حامل ہوا تو؟

پلازمہ سے علاج

کوئی وائرس کسی انسان میں داخل ہوتا ہے تو انسانی مدافعاتی نظام اس کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے لیے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے، یعنی اس وائرس سے نمٹنے کی مکمل معلومات۔ تاکہ اگر وہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو اس سے فوراﹰ نمٹا جا سکے۔ اگر وائرس کو شکست دینے والے کسی مریض کے خون کا پلازمہ کسی دوسرے مریض کو لگایا جائے، یعنی نئے مریض کے مدافعاتی نظام کو وائرس کو شکست دینے سے متعلق معلومات مہیا کر دی جائے، تو مریض جلد شفایاب ہو سکتا ہے۔ مگر یہ طریقہ کار انتہائی مہنگا اور محنت طلب ہے اور کسی وبا کی صورت میں اس کا استعمال بے پناہ وسائل مانگتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ویکسین بننے تک اس وائرس کے انسداد کا اہم ترین راستہ احتیاط ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Tass/K. Kukhmar

اور ویکسین

اس وقت دنیا بھر کے سائنس دان کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں۔ لیکن ویکسین کی تیاری، ٹیسٹنگ، نتائج اور سائیڈ افیکٹس کے علاوہ مختلف طبی اداروں سے ان کی منظوری ایک  طویل عمل ہے۔ کورونا وائرس کی کوئی ویکسین بنتی بھی ہے، تو بھی اسے دستیاب ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور اس دوران وائرس بڑی انسانی آبادی کو متاثر کر سکتا ہے۔

ہسپانوی حکومت نے ایک مطالعاتی رپورٹ کے تناظر میں لکھا ہے کہ اسپین کی مجموعی آبادی کا قریب پانچ فیصد ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے متاثر ہو چکا ہے، جب کہ میڈرڈ سمیت ملک کے دیگر وسطی حصے، جو اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، وہاں ممکنہ  طور پر یہ تعداد دس فیصد کے قریب بنتی ہے۔ فرانس نے بھی اپنی ایک تازہ مطالعاتی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پیرس اور ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں کورونا وائرس کی وبا سے متاثرہ افراد تعداد مجموعی آبادی کا قریب دس فیصد تک بنتی ہے۔ کورونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اسی تناظر میں عالمی ادارہ صحت نے بھی متنبہ کیا ہے کہ شاید یہ وائرس اب دنیا سے کبھی ختم نہ ہو سکے۔ عالمی ادارے کے مطابق اب انسانوں کو اس وائرس کے ساتھ رہنا سیکھنا ہو گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں